ارض و سماں سے ایک سوال

   

ڈاکٹرمرزا غلام حسین بیگ

محترم قارئین سے اس بندہ ناچیز کا یہ سوال ہے کہ کیا کوئی انسان باوجود تمام علوم کی ترقی اور مشاہدہ کی باریکی کہ اس درجہ لائق و فائق ہوچکا ہے کہ وہ آسمان اور زمین سے سوال کرسکے اور جواب طلب کرسکے کہ بتاؤ کہ جب ہر شئے اور ہر زمانے کو تغیر و تبدّل سے ہر آن گزرتے رہنا ہے ایسے میں تیری معتبر نگاہوں میں ازل سے اب تک کوئی ایسی جنگ بھی ہے جو صرف حق کے لئے لڑی گئی بجز کربلا کے ؟ یہ سوال اس قدر مضبوط اور آفاقیت کا حامل ہے کہ صرف آسمان و زمین ہی اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔

میرا کامل ایقان ہے کہ ارض و سماں کا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ مفتوح ہوکر بھی فاتح کہلانا اور مدمقابل بظاہر فاتح ہوکر بھی مفتوح قرار پانااور ابد تک تمام انسانوں کی ملامتوں کا مستحق ٹھہرنا اور اللہ اور اُس کے رسول کا مغضوب ٹھیرنا تاریخ بشریت کا ایسا انوکھا ونادر واقعہ گزرا ہے جس کی نظیر تاقیامت نہیں مل پائے گی۔یہاں اس موضوع کو تھوڑی دیر کے لئے روک کر ضمناً تھوڑا ذکر یہ بھی کردوں کہ کرۂ ارض پر خداوند متعال کی سب سے مشرف تخلیق ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام اور حوا صلواۃ اللہ علیہا کی ہے جن کے پاک و پاکیزہ صلب سے تمام اہلبیت کا نطفہ نسل در نسل پاک و پاکیزہ اصلاب وارحام سے گزرتا ہوا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل سے ہوتا ہوا حضرت ہاشم تک منتقل ہوا اور پھر یہ حضرت عبدالمطلب سے ہوتا ہوا حضرت عبداللہ تک آیا اور آپ ہی کے پاک صلب سے پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تولد ہوئے جن کی عظیم المرتبت دختر حضرت فاطمۃ الزہرا صلواۃ اللہ علیہا متولد ہوئیں جن کا عقد مسعود حضرت علی ابن ابوطالب خلیفۃ اللہ سے ہوا۔ حضرت فاطمہ زہراؓ کے پاک بطن سے ذوات قدسیہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسین ؓاور حضرت زینب کبریٰ و حضرت صغرا متولد ہوئیں جو اُمت کی شفاعت کا وسیلہ قرار پائے۔
ہر نبی مکرم کی بعثت زمین کے تمام خطوں پر مسلسل ہوتی رہی جہاں جہاں انسانی آبادی تھی تاکہ اُن کی ہدایت ہوتی رہے۔اللہ نے ہر انسان کی ہدایت کا ہمیشہ بندوبست رکھا کسی کو ہدایت سے محروم نہ رکھا۔ تمام انبیاء مختلف ادوار میں مختلف آبادیوں میں مبعوث ہوتے رہے انہیں اپنے علم کی دولت سے سرفراز کرکے بھیجا اور صبر و تحمل سے کام لینے کی تلقین بھی کردی۔ ان انبیاء اور رسولوں نے اپنے اپنے دور کے انسانوں کی ذہنی سطح اور سوجھ بوجھ کے معیار کے اعتبار کو ملحوظ رکھتے ہوئے دین کی تبلیغ کی چنانچہ تبلیغ دین کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔اس مدت کے دوران وقفہ وقفہ سے اللہ تعالیٰ نے چند انبیاء پر اپنے صحیفے بھی نازل کئے اور وحی بھی کی۔اللہ تعالیٰ نے انسانی صلاحیتوں کو بتدریج فروغ دیا چونکہ عام انسانوں کی اکثریت ہمیشہ ہدایت سے منہ موڑتی اور کتراتی رہی ہے لہٰذا اکثر انبیاء علیھم السلام کی ہدایت کی تمام کاوشیں ضائع ہوتی رہی ہیں۔انسان اپنی نفسیاتی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے اور دنیوی مادی مفادات کو اخروی اور ابدی فوائد پر ترجیح دینے کی ہمیشہ سے روش رکھتا آیا ہے لہٰذا اُسے الٰہی تعلیمات میں کوئی کشش نظر نہیں آئی چنانچہ انہوں نے آسمانی کتب میں تحریفیں کرڈالیں اور انہیں ناقابل یقین حد تک مسخ کرڈالا۔اب قرآن کریم وہ آخری صحیفہ ہے جو ہدایت کا سر چشمہ ہے اور قیامت تک صحیح وسالم اور روز قیامت تک محفوظ رہنے والا ہے کیونکہ اب نہ کوئی نبی آنے والا ہے اور نہ ہی کوئی اور صحیفہ نازل ہونے والا ہے۔ اب قرآن ،سیرتِ حضورِ سرور کائناتؐ اور اُن کی عترت(اہلبیت اطہارؓ) آخرت میں حساب وکتاب کا معیار اور پیمانہ ہیں۔جنت اور دوزح کا فیصلہ اسی معیار پر منحصر ہے جنہوں نے ان کے مطابق عمل کیا اور زندگی ان ہی کی متابعت میں گزاری وہی فلاح پائیں گے۔قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے زمین کے اُس خطہ پر نازل کیا جو پورے کرۂ ارض کا سب سے تاریک اور پچھڑا ہوا تھا۔اپنے سب انبیاء میں سب سے زیادہ بزرگ تر نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وہیں بھیجا یعنی سرزمین حجاز جو آج ساری دُنیا میں سب سے متبرک ہے۔خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ وہیں پر قائم ہیں۔یہیں سے ہدایت کا اُجالا دور دور تک پھیلا۔اُس وقت حجاز میں جہالت کا یہ عالم تھا کہ وہاں نہ صرف جہلا ہی تھے بلکہ ابوجہل بھی بستے تھے۔ گھر میں اگر لڑکی تولد ہوتی تھی تو بلا توقف وبلا تامل وبلا تردّدماں باپ ہی اُس کو پیوند خاک کردیتے تھے۔زندہ دفن کرکے یہ کہتے تھے کہ ہمارے گھر کی عزت وعصمت کسی دوسرے کے گھر نہ جانے پائے۔ایسے تکلیف دہ اور نامناسب ماحول میں سرکار ختمی مرتبتؐ رحمت العالمین کا نزول ہوا۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے جہلائے مرکبین کی ہدایت کی بھاری بھرکم ذمہ داری دے کر بھیجا۔ یہ ذمہ داری سابقہ تمام انبیاء سے زیادہ وزنی اور دشوار تھی۔یہ آپ کے لئے اہم ترین اور مشکل ترین امتحان تھا۔ آپؐ اپنی ابتدائی زندگی کے چالیس سال صرف اپنے مضبوط کردار کا اس جاہل قوم سے لوہا منوانے میں صرف کردیئے جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ آپؐ کے جانی دشمن بھی آپؐ کو صادق و امین کہنے پر عملاً مجبور ہوگئے۔زندگی کے اس اہم مرحلے کو عبور کرنے کے بعد آپؐ نے حکم الٰہی سے اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کا آغازدعوت ذوالعشرہ سے کیا۔اعلان رسالت کا کرنا تھا کہ وہ لوگ جو آپؐ کو صادق و امین مانتے تھے اور آپؐ کی ہر بات کو بلا شک و شبہ کے مانتے تھے یکایک جان کے دشمن ہوگئے ۔ قریش اور بنی اُمیہ کے سردار ابوسفیانؓ بن حرب اور خود آپؐ کا چچا ابولہب و دیگر آپ کی جان کے دشمن ہوگئے۔ دشمنوں نے آپؐ کو اذیت پہنچانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔اذیت اس قدر ہولناک ہوگئی تھی کہ حضرت ابوطالب نے آپ کو دشمنوں سے بچانے کے لئے ارکان خاندان کے ساتھ شعب ابی طالب میں پناہ لینی پڑی۔ شعب ابوطالب کی تفصیل درج ذیل ہے۔

جب قریش اور مکہ کے مشرکین نے اچھی طرح دیکھ بھال لیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تبلیغ سے باز نہیں آرہے ہیں اور اُن کے خود ساختہ معبودوں کی بھی تکذیب کرنا نہیں چھوڑ رہے ہیں اور حضرت ابوطالب اُن کی حفاظت میں مثل سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح استقامت دکھارہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں قتل کرنا بھی ناممکن ہوتا جارہا ہے لہٰذا انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینے نت نئے ستم ایجاد کرنے لگے۔ چنانچہ ان ظالمین نے عاجز ہوکر یہ تدبیر سوچی کہ آنحضرتؐ اور آپؐ کے خاندان کو محصور کرکے تباہ کردیا جائے چنانچہ تمام قبائل نے ایک معاہدہ مرتب کیا کہ کوئی شخص خاندان بنی ہاشم سے نہ قرابت رکھے گا اور نہ اُن کے ہاتھوں خرید وفروخت کرے گا اور نہ اُن سے ملاقات ومدارات رکھے گا اور نہ اُن کے پاس کھانے پینے کا سامان جانے دے گا جب تک کہ خود حضرت ابوطالب حضور اکرمؐ کو قتل کرنے اُن کے حوالے نہ کردیں۔ یہ معاہدہ منصور بن عکرمہ نے لکھا جس پر دیگر چالیس سردارانِ مکہ نے دستخط کئے اور اظہارِ رضا مندی کیا۔ پھر اس معاہدہ کو کعبہ کے دروازے پر آویزاں کردیاگیا۔
ابوطالب نے اس مقاطعہ یا بائیکاٹ سے مجبور ہوکر حضور اکرم ؐ کی حفاظت کی خاطر تمام خاندانِ ہاشم کے ساتھ شعیب ابوطالب میں بطور پناہ گزیں مقیم ہوگئے۔تین سال سے زائد عرصہ تک بنو ہاشم اس شعب ابوطالب میں مقیم رہے اور بہت دن گزارے،سینکڑوں صعوبتیں اُٹھائیں اور تکالیف برداشت کیں۔شعب ابوطالب پہاڑ کا ایک درہ تھا جو خاندان ہاشم کا موروثی علاقہ تھا۔ اس زمانے میں بنی ہاشم طلح کے پتے کھا کھا کر گزارہ کرتے تھے ۔
حضرت ابوطالب نے ۱۲ رجب المرجب ۳۳ ھ؁ غالباً ۶۵۶ء؁ میں مدینہ میں۸۸سال کی عمر میں وفات پائی اور بقیع میں دفن کئے گئے۔عرض یہ کرنا مقصود ہے کہ ابتدائی صحیفوں توریت،انجیل،زبور کی طرح عین ممکن تھا کہ چوتھے صحیفے،قرآن کریم کو بھی یزید کے دور خلافت میں تحریف کردیا جاتا اور تعلیمات رسول اکرمﷺ کو بھی مسخ کردیا جاتا۔مسلمانوں کے اذہان سے محو کردیا جاتا یا پھر متنبہ کردیا جاتا۔انہیں تہس نہس کرکے اپنے مقصد ومنشاء کے مطابق تدوین جدید کردی جاتی کیونکہ یزید اور اُس کے ہمنواؤں سے ہر چیز ممکن تھی جب امام حسین ؓ جیسی مقدس ترین ہستی کے قتل اور مخدّرات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دربدری سے وہ خوف نا کھائے تو ان کے لئے قرآن میں تحریف کرنے کا خوف کیوں ہوتا پھر بھی انہوں نے کچھ جرأت دکھائیں اور احادیث گھڑیں لیکن چونکہ قرآن کا محافظ اللہ تعالیٰ خود ہے لہٰذا وہ ایسا نہ کرسکے۔ ورنہ یزید سے ہر خبیث کام ممکن تھا۔یزید نے قرآن کریم کو آسمانی کتاب ماننے سے انکا ر کردیا۔ وہ تو معتقدات اسلامی کا مضحکہ اُڑایا کرتا تھا، مسلمانوں کے تمام مسالک کے علماء کرام اور مورخین نے اس تاریخی حقیقت کا اعتراف کیا اور قلم بند بھی کیا ہے۔یزید کے پدر بزرگوار امیر شام نے اپنی حیات ہی میں یزید کو اپنا جانشین مقرر کردیاتھا اور اُس کے لئے بیعت بھی لے لی تھی اورجن لوگوں نے بیعت کرنے سے انکار کیا اُن پر سختیاں کیں ۔ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے،یہاں تک کہ اُن کے قتل سے بھی دریغ نہ کیا۔امیر شام کی سختیوں سے خائف ہوکر بلادِ اسلامی کی اکثریت نے یزید کی بیعت کرلی تھی۔یزید کو جو فاسق،فاجر،زانی،شرابی اور بے دین تھا کو خلیفۃ المسلمین تسلیم کرلیا تھا لیکن حضرت امام حسین ؓنے یزید کی بیعت سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ’’ مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔امام حسین ؓاپنی اعلیٰ مرتبت اوریزید کی کمترین حیثیت کو جانتے ہوئے بھی امام حسین ؓسے بیعت کا مطالبہ حد درجہ افسوسناک اور بلاد اسلامیہ کے اکابرین کا سکوت اور قیام سے گریزاُس وقت کی اسلامی حمیت کے مردہ ہوجانے کا ثبوت ہے۔ان شرفائے مکہ و مدینہ نے نہ صرف امام حسین ؓکے ساتھ دفاع اسلام کے لئے نہ صرف کوئی اقدام نہ کیا بلکہ امام حسین ؓسے محبت اور خیر خواہی کے لبادہ میں خود امام حسین ؓسے محبت اور خیر خواہی کے لبادہ میں خود امام حسین ؓ کو کوئی اقدام سے باز رکھنے کی کوششیں کیں۔ آپ ؓ کو کوفہ نہ جانے کے مشورے دیتے رہے۔حیرت ہوتی ہے کہ بلاد اسلامیہ کی اکثریت نے جب یزید سے بیعت کرلی تھی تو پھر حضرت امامِ حسین ؓسے بیعت کا تقاضہ اور اصرار کیوں تھا۔کیا اتنے لوگوں کی بیعت کے باوجود یزید اور اُس کے لواحقین کو اطمینان نہ تھا۔کیا کوئی اندرونی خوف ستارہا تھا ان سوالات کا مختصر جواب یہ ہے کہ یزید اور اُس کے پدر جانتے تھے کہ امام حسینؓ کی خاندانی بزرگی اور جلالت اور اعلیٰ کردار اور رسالت مآب سے گہرا تعلق لوگوں کو انہیں خلیفہ ماننے کے لئے صدقِ دل سے آمادہ کرے گا۔تب اُس کی ناجائز خلافت خطرے میں پڑ جائے گی۔ایک اور بات یہ تھی کہ امام حسین ؓ معصوم تھے اور ایک معصوم کسی غیر معصوم اور خطا کار فاسق و فاجر اور بدکار کی بیعت ازروئے شریعت ہرگز نہیں کرسکتا تھا۔نعوذ باللہ اگر حسین ؓیزید کی بیعت کرلیتے تو ایک یزید کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر دور کے یزید کے لئے سند ہوجاتی ۔

امام حسین ؓاپنی ذمہ داری جانتے تھے چنانچہ آپ ؓنے اللہ تبارک و تعالیٰ کے بھیجے ہوئے دین اور حضور اکرمﷺ کے پہنچائے ہوئے دین متین کو قیامت تک کے لئے محفوظ فرمانے کے لئے میدان کربلا میں آگ برساتی ہوئی دھوپ ،شعلے اُگلتی ہوئی ریت پر مسلسل تین دن کی بھوک اور شدت کی پیاس کو برداشت کرنے اور قربانیاں پیش کرنے اپنے بیٹوں،بہن،بھانجوں ،بھتیجوں اور بھائیوں کے ہمراہ واردِ کربلا ہوئے۔
جب سب ختم ہوگئے اور آپ تن تنہا رہ گئے تب آپؓ نے کمال استقامت کے ساتھ انتہائی صبر و شکرکے ساتھ خود کو بارگاہِ خداوند میں سپر د کرتے ہوئے آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوکر مناجات کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’پروردگار میں نے اپنا وعدہ پورا کیا اب تو اپنا وعدہ پورا کر‘‘رسول اکرم کے ارشاد گرامی ’حسین منی و انا من الحسین‘‘ کی روشنی میں میری اس تحریر پر غور فرمائیں تو سمجھ سکتے ہیں کہ’’میں حسین سے ہوں‘‘‘ اس بلیغ اور فصیح جملے میں اسلام کی بقا کے کتنے اہم راز پوشیدہ ہیں۔اگر حسین ؓ، یزید کے دستِ نجس پر نعوذ باللہ بیعت کرلیتے تو حضرت ختمی مرتبت کا دین اپنی اصلی شناخت چودہ سو سال پہلے ہی کھوچکا ہوتا اور ہمارے اجداد اور ہم حقیقی اسلام سے محروم ہوچکے ہوتے۔اسی حقیقت کو پیش نظر رکھ کر ملک الشعراء حضرت اوج یعقوبی نے بڑی اہم اور نکتہ رس بات اس قطعہ کی شکل میں ہمارے لئے غور فکر کے لئے چھوڑ گئے۔فرماتے ہیں:
یارو حسینؓ کا بہت اونچا مقام ہے
دانستہ قل ہونا‘ بڑے دل کا کام ہے
یہ دین جس کا مذہب اسلام نام ہے
یہ عطیۂ حسین علیہ السلام ہے
چیف میڈیکل آفیسر یونانی ( ریٹائرڈ)
Phone : 040-24515100