از روئے شرع کووڈ ۔ 19 ویکسین کا استعمال شکوک و شبہات کی چنداں ضرورت نہیں

   

آج بھی پاکستان اور افغانستان میں بعض علاقہ جات میں جہاں ان افراد کی کمی نہیں جو اپنی اولاد کو پولیو کا ٹیکہ نہیں لگواتے ہیں ، ان کے زعم میں یہ پولیو کی ٹیکہ اندازی درحقیقت انگریزوں کی ایک چال ہے ۔ علاوہ ازیں بعض وہ حضرات ہیں جو بدجانور کے ناپاک اجزاء پر مشتمل جیلاٹین کے استعمال کی بناء ٹیکہ اندازی کے مخالف ہیں۔ نتیجے میں کئی معصوم بچے اپاہج ہوگئے اور معذور زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔

جن حضرات نے اس کو دشمن کی چال یا حرام قرار دیا ان لوگوں نے اس ویکسین کا کوئی متبادل فراہم نہیں کیا ۔ کیا ایسے لوگ انسانیت کے دوست ہیں یادشمن ؟ کیا وہ آخرت میں ماخوذ نہیں ہوں گے ؟
فقہ اسلامی کی خوبی ہے کہ دنیا کا کوئی ملک یا کوئی قوم یا کوئی کمپنی کسی بھی میدان میں انسانیت کے استعمال کے لئے کوئی چیز فراہم کرے تو وہ ہرچیز کو شریعت اسلامی کے دائرہ میں لاکر شرعی اُصول و قوانین کے تابع بنادیتی ہے۔ اور اہل اسلام کو ان اشیاء کے استعمال اور استفادہ کے بابت اس کے قیود و تحدیدات کے ساتھ واضح ہدایات فراہم کرتی ہیں ۔ جن کی روشنی میں ایک مسلمان کو کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ مثال کے طورپر غذا اور ادویہ میں حرام اشیاء کی آمیزش اہل اسلام کے لئے ایک سنگین مسئلہ ہے لیکن فقہ اسلامی میں اس کا واضح حل موجود ہے ، اس میں کسی نئی تحقیق کی چنداں ضرورت نہیں۔
متعدی وباء سے نپٹنے کے لئے شریعت میں واضح رہنمائی موجود ہے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’جب تم کسی سرزمین میں وباء کے پھوٹنے کی خبر سنو تو وہاں مت جاؤ اور تم متاثرہ مقام پر ہو تو وہاں سے مت نکلو ( تاکہ تمہاری وجہہ سے دوسرے افراد متاثر نہ ہوں )‘‘ ۔ (بخاری ، کتاب الطب ، باب ما ذکر فی الطاعون)
نیز بخاری کی ایک حدیث ہے :’’ تم متعدی مرض کے شکار جذامی سے ایسا بھاگو جیسا تم کسی شیر سے بھاگتے ہو‘‘ ۔
علامہ عینی کی تشریحات کے مطابق متعدی وباء سے بچنے اور اس کے علاج و معالجہ کے لئے ہر ممکنہ اسباب اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ایک مسلمان پر لازم ہے ۔ (عمدۃ القاری ، ۲۱؍۲۵۹)
واضح رہے کہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں نص قطعی سے مردار جانور ، خون ، خنزیر ،غیرشرعی طریقے پر ذبح کئے گئے جانور کو حرام قرار دیا ہے۔ ان کو یا ان کے کسی جز کو بطور غذا یا بطور دوا استعمال کرنا شرعاً حرام ہے ۔ اِلا یہ کہ اضطرار کی صورت ہو ، جان بچانے کے لئے کوئی چارہ کار نہ ہو تو ان کا استعمال بقدر ضرورت جائز ہے ۔ (سورۃ المائدہ ؍۳)
البتہ جب کسی چیز کی حقیقت ، اصل ، ماھیت بدل جاتی ہے تو اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے۔مثال کے طورپر انگور حلال اور پاکیزہ میوہ ہے لیکن جب اس سے شراب بنتی ہے تو اس کی حقیقت بدل گئی تو اس کا استعمال حرام ہوگیا ۔ بایں ہمہ وہی شراب ’’سرکہ‘‘ میں تبدیل ہوجائے اور اس میں نشہ کاکوئی جز اور اثر باقی نہ رہے تو پھر اس کا استعمال درست ہوجائیگا۔
معلوم ہوا کہ حقیقت کے بدل جانے سے حلال چیز حرام ہوجاتی ہے اور حرام چیز حلال۔ انسان حلال غذا اور میوہ جات کھاتا ہے ، کھائی ہوئی تمام حلال غذا پیٹ میں ایک مخصوص پراسس سے گزرکر بول و براز کی شکل میں خارج ہوتی ہے ۔ معدہ کے نظام ہضم کے سبب حلال غذا کی حقیقت تبدیل ہوگئی لہذا بول و براز ناپاک و نجس قرار پائے ۔

انسان کا گوشت اس کی شرافت کی بناء حرام ہے ، کتے اور خنزیر کا گوشت ان کی نجاست کی بناء حرام ہے ۔ اگر نمک کی کان میں انسان ، کتا یا خنزیر گرکر نمک میں تبدیل ہوجائیں ان کے جسم کے کسی چیز کا کوئی اثر باقی نہ رہے تو اس نمک کا استعمال بلا کراھت جائز ہے ۔ اسی قاعدہ کے تحت جن
Vaccine
میں حرام اشیاء کی آمیزش ہوئی ہے اس کے شرعی حکم پر غور کیا جائیگا ۔ کورونا ویکسین سے قبل بعض
Vaccines
کی تیاری میں مصدقہ طورپر جیلاٹین کا استعمال ہوا ہے ۔ مثال کے طورپر
Children’s Hospital of Philadelphia
کے مطابق
(Rabavert), (Pro Quad), (MMRII),
(Flumist), (YF-Vax), (Varivax), (Vivotif)
میں جیلاٹین کی ایک مقررہ مقدار موجود ہے ۔
بناء بریں کورونا ویکسین کی تیاری میں بھی جیلاٹین کے استعمال کا اندیشہ ہوا ہے جبکہ
University of Machigan
کے مطابق
Covid-19 Vaccines
میں خنزیر کے اجزاء کا استعمال نہیں ہوا ہے ۔ جن
Vaccine
میں حرام اشیاء کی آمیزش ہو اس کا کیا حکم ہے ؟
کسی بھی ویکسین میں راست طورپر حرام اشیاء کی آمیزش نہیں ہوتی بلکہ خنزیر یا مردار جانوروں کے بعض اجزاء کو علحدہ کرکے مختلف کیمیکل پراسس سے گزارکر جیلاٹین بنایا جاتا ہے اور اس جیلاٹین کو مختلف کیمیکل پراسس سے گزارکر ادویہ میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ بعض سائنسی تحقیقات کے مطابق خنزیر یا مردار جانور کے اجزاء بالکلیہ طورپر اپنی اصلی حالت میں نہیں رہتے ہیںاس لئے ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں یعنی ویکسین جوکہ ایک سیال مادہ ہے جو جسم انسانی میں انجیکٹ کیا جاتا ہے ۔ جسم انسانی میں منتقل ہونے والے سیال مادہ کی مقررہ مقدار کو تحلیل کیا جائے تو کیا اس میں جیلاٹین کو الگ کیا جاسکتا ہے ؟ اور جیلاٹین کو الگ کیا جاکر اس کی مزید تحلیل کی جائے تو کیا خنزیر کا وہ جز اپنی اصلی حالت پر واپس آئیگا ؟ اگر نہیں تو اس کا استعمال بلا کراہت جائز ہے اور جسم انسانی میں انجیکٹ کئے جانے والے ویکسین کے سیال مادہ کی تحلیل در تحلیل کے بعد اس میں حرام اشیاء کے بعض اجزاء کے اصلی حالت میں رجوع کا امکان ہو لیکن اس استعمال میں شفاء کا تیقن ہو ، اور مسلمان ماہر طبیب اس کو تجویز کرتا ہو ، اس کے علاوہ کوئی
Gilatine Free
ویکسین نہ ہو یا اس کی طرح مؤثر نہ ہو تو اس کے استعمال میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے زہر کھانا حرام ہے لیکن جسم میں پھیلے زہریلے جراثیم کو مارنے کے لئے زہر پر مشتمل ادویہ کا استعمال بطور علاج جائز ہے۔
احناف نے اس موقف پر حدیث شریف سے استدلال کیا ہے کہ جب قبیلہ عرینہ کے افراد مدینہ کی آب و ہوا سے متاثر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان کو علاج کے طورپر اونٹ کا دودھ اور پیشاب پینے کی تجویز دی۔(بخاری ، کتاب الوضوء ) جس سے ظاہر ہے کہ بوقت ضرورت بقدر ضرورت حرام اشیاء پر مشتمل ادویہ کے استعمال کی اجازت ہے ۔ (البحرالرائق ج ۱ ص : ۱۱۵ میں متذکرہ حدیث سے وجہہ استدلال پر تفصیل موجود ہے) ۔

اس ضمن میں جامعہ نظامیہ کے مفتی اول حضرت مولانا مفتی محمد رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ کا تحقیقی فتویٰ شکوک و شبھات کے ازالہ کیلئے کافی ہے ’’حرام چیزوں سے علاج کرنا اس وقت جائز ہے جبکہ مریض کو یا تو بطور خود اس بات کا یقین ہو کہ اس کے استعمال سے شفاء ہوگی یا کوئی مسلمان طبیب اس کو یہ بات کہے اور حرام شئے کے سوا اس بیماری کے لئے کوئی اور جائز دوا بھی نہ ہو ورنہ شئے حرام سے علاج کرنا ناجائز ہے ۔ فتای ردالمحتار جلد ۴ صفحہ ۲۲۴ میں ہے … اور اگر کوئی طبیب جائز چیز دواء ہونے کے باجود یہ کہے کہ اس حرام چیز سے جلد نفع ہوگا تو ایسی حالت میں حرام چیز کے استعمال کرنے کو بعضوں نے جائز رکھا ہے اور بعض علماء نے ناجائز… ‘‘ (تفصیل کیلئے دیکھیئے فتاوی نظامیہ ص : ۴۳۹)