استقبال رمضان المبارک

   

ڈاکٹر عاصم ریشماں
ہر مومن فرحت و انبساط اور بشاشت قلبی کے ساتھ اس ماہ مبارک کا استقبال کرتا ہے ، اس کی آمد پر اپنے اندر شادمانی محسوس کرتا ہے ،رمضان ،قرآن، انسان اور مسلمان یہ چاروں الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ گہرا ربط و تعلق رکھتے ہیں۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہمیں یہ پتہ دیتا ہے کہ اس کی مبارک ساعتوں میں نزول قرآن ہوا ہے۔ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے اور یہ اعزاز و شرف اسے فطرتاً ودیعت کردیا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ عملی زندگی میں کیا ہر انسان اشرف المخلوقات ہے؟ اگر نہیں تو پھر انسان اشرف المخلوقات کیسے بن سکتا ہے؟انسان کا شرف اللہ کی اطاعت میں ہےانسان اگر اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کا تاج پہنچانا چاہتا ہے تو اُسے اس امر کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ انسان کا شرف اللہ کی اطاعت میں ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن یوں متوجہ کرتا ہے کہ اشرف المخلوقات انسان وہی ہوسکتا ہے جو اس ارشاد باری تعالیٰ پر پورا اُترے:’’جس نے اپنا چہرہ اﷲ کے لیے جھکا دیا (یعنی خود کو اﷲ کے سپرد کر دیا)‘‘۔(البقرہ)جو انسان اپنے رب کے سامنے جھک گیا، اس کا فرمانبردار ہوگیا ایسا انسان قرآن کے نزدیک اشرف المخلوقات کے اعزا زکا مستحق ہے۔اشرف المخلوقات کے اعزاز کے حصول کیلئے ماہ رمضان المبارک ایک مسلمان کو ایک خاص قسم کا ماحول اور روحانی کیفیت عطا کرتا ہے جس بناء پر اس منزل کے حصول کے لئے اس کا سفر آسان ہوجاتا ہے۔
رمضان کی فضیلت کا اظہار باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمایا: رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے ‘‘ ۔ ( سورۃ البقرہ )
پس نزول قرآن کی وجہ سے ماہ رمضان دوسرے مہینوں سے ممتاز اور منفرد ہے۔ اللہ کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت اور رسول اللہ ﷺکی نبوت و رسالت کی سب سے بڑی علامت، صداقت و حقانیت خود قرآن ہے۔ گویا قرآن ایک طرف اللہ کی کتاب اور اُس کا کلام ہے تو دوسری طرف رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت کا ایک زندہ معجزہ بھی ہے۔
اللہ رب العزت نے روزوں کی فرضیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا:’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘ ۔ ( سورۃ البقرہ )اس آیت مبارکہ میں روزوں کی فرضیت کے مقصد ’’تقویٰ کا حصول‘‘ کو بیان فرمایا گویا جو روزہ انسان کو تقویٰ و پرہیزگاری سے آشنا نہ کرے اور اس کی عملی زندگی میں اللہ رب العزت کے احکامات کی بجا آوری اور منع کردہ اشیاء سے رُکنے پر آمادگی پیدا نہ کرے، وہ روزہ بے روح اور بے مقصد ہوگا۔ ان روزوں کا دوسرا مقصد قرآن میں یوں بیان فرمایا گیا: ’’اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ‘‘۔ ( سورۃ البقرہ )
جب رمضان ہماری زندگی میں آئے تو اسے اپنے رب کی طرف سے خیر جاننا ہوگا۔ اس کی بارگاہ میں شکر گزاری کے جذبے کے ساتھ ان روزوں کو رکھنا ہوگا، موسموں کی شدت و حدت اور نفسانی خواہشات کو اپنے راستے کی رکاوٹ بننے سے روکنا ہوگا۔ ہماری تعیشات بھری زندگی اللہ کی اطاعت میں رکاوٹ نہ بنیں۔