اسرائیل نے ’اونروا‘چیف کو غزہ میں داخلے سے روک دیا

   

غزہ کو امداد بھیجنے والے اونروا چیف فلپ لازارینی کا قاہرہ میں پریس کانفرنس کے دوران اسرائیلی اقدام پر حیرت کا اظہار
قاہرہ : اسرائیل اپنے کاموں کے حوالے سے دنیا کا انوکھا ملک مشہور ہے لیکن اس نے ایک تازہ اقدام ایسا کیا ہے کہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ موجودہ عالمی نظام کو سرے سے ماننے کو بھی تیار نہیں ہے۔ اسرائیل نے پیر کے روز اقوام متحدہ کی ایجنسی ‘ اونروا’ چیف کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ اس سے پہلے اسرائیل اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کرنے کو بھی کم تیار ہوتا ہے۔’اونروا’ سربراہ فلپ لازارینی اور مصری وزیر خارجہ سامح شکری نے اسرائیل کے اس اقدام کو انوکھا قرار دیا ہے جس کی ماضی میں کسی بھی ملک کی طرف سے مثال نہیں ملتی کہ ایک انسانی بنیادوں پر کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے کے سربراہ کو بھی فوجی قوت کی بنیاد پر روک دیا ہے۔خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اسرائیل ہر اس ملک کے لیے نفرت اورغصے کی اس سے بڑھ کر اور سخت کارروائی نہ کر دے کہ جو ملک غزہ کے 24 لاکھ تباہ حال اور قحط کی زد پر فلسطینیوں کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد بھیجتے ہیں۔’اونروا’ چیف فلپ لازارینی مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری کے ساتھ قاہرہ میں پیر کے روز ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ رفح جانا چاہتے ہیں لیکن مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ اسرائیل نے مجھے رفح میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔اس پر مصر کے وزیر خارجہ نے لازارینی سے کہا ‘ اسرائیل کی طرف سے آپ کو اس طرح رفح میں داخلے سے روکا جانا ایک بے مثال اور انوکھا اقدام ہے۔ یہ اسرائیل ہے جس نے اقوام متحدہ کے اہم منصب پر فائز ایک عہدے دار کو اس طرح روکا ہے۔’واضح رہے ‘ اونروا ‘ کا ادارہ اقوام متحدہ نے 1949 میں فلسطینی پناہ گزینیوں کے لیے بنایا تھا۔ ‘اونروا’ غزہ میں انسانی بنیادوں پر کام کرنے والا اس وقت سب سے بڑا امدادی ادارہ ہے۔لیکن اسرائیل نے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے سربراہ کو ایک ایسے وقت میں جنگ زدہ اور قحط زدہ علاقے میں جانے سے اجازت دینے سے انکار کیا ہے جب شمالی غزہ میں ماہ مئی تک قحط کی صورت حال رہ سکتی ہے۔لازارینی اس بارے میں کہہ چکے ہیں کہ ہمارا مقابلہ اس وقت غزہ میں انسانی ساختہ قحط کو روکنے کے لیے وقت کی رفتار کے ساتھ مقابلہ ہے، ہر آنے والی گھڑی اس قحط کو لانے میں کردار ادا کر رہی ہے اور ہمیں اس کو روکنا ہے۔’اونروا’ سربراہ نے مزید کہا ‘مگر یہ قحط صرف اس طرح روکا جا سکتا ہے کہ اس کے لیے سیاسی سطح پر سوچ اور ارادہ پایا جاتا ہو، جس کے تحت غزہ میں خوراک کا بہاؤ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اسی صورت قحط کے طوفان کو روکا جا سکتا ہے کہ دوسری سمت سے خوراک کا سیلاب غزہ کی طرف بڑھنا شروع کرے۔’لازارینی نے بطور ‘ اونروا چیف سات اکتوبر سے لے کر اب تک غزہ کے چار دورے کیے ہیں۔ یہ بات اس ادارے کے ‘ کمیونکیشن ڈائریکٹر’ جولیٹ ٹوما نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے ‘ روئٹرز’ کو بتائی۔ ڈائریکٹر نے بتایا چیف کو غزہ میں داخلے سے روکنے کا اسرائیلی حکم آج ہی سامنے آیا ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ‘اونروا’ کے سربراہ کو اس طرح روکا گیا ہے۔
تاہم ہم قاہرہ سے آج مصر کے صحرائی ائیرپورٹ العریش پہنچیں گے۔’یاد رہے غزہ میں کام کرنے والے ‘ اونروا’ کارکنوں کی تعداد 13000 ہے۔ جن میں سے 12 کارکنوں پر اسرائیل نے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے سات اکتوبر کے حماس حملے میں حماس کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ تاہم ‘اونروا’ کی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کارکنوں کو تشدد کر کے اسرائیلی حکام نے اپنی مرضی کا بیان لیا تھا۔البتہ امریکہ کی پیروی کرتے ہوئے 16 ملکوں نے ‘ اونروا’ کے لیے فنڈز کی ترسیل روک دی ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیل کے محض الزام کو ہی غیر معمولی اہمیت دی جبکہ اقوام متحدہ کی طرف سے تحقیقات کا بھی انتطار نہ کیا۔دوسری جانب آسٹریلیا ان ملکوں میں شامل ہے جنہوں نے بعد ازاں فنڈز بحال کر دیے ہیں۔ لازارینی نے حال ہی میں انکشاف کیا تھا کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں ‘ اونروا ‘ کے 150 امدادی مراکز بشمول تعلیمی اداروں کو حملوں کا نشانہ بنا کر نقصان پہنچایا یا تباہ کر دیا ہے۔