اسرو ۔بیل بنڈی سے خلائی ٹکنالوجی کی تجارت تک

   

محمد ریاض احمد
کچھ تواریخ قوموں کی تاریخ میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں کیونکہ وہ ایام و لمحات قوموں کے مقدر چمکنے کا آغاز ثابت ہوتے ہیں۔ آج وہی قوم ترقی کرسکتی ہے جو علم و عمل کے میدان میں آگے رہے جو اپنی دانش گاہوں کو حقیقت میں تحقیق و دریافت اور ایجادات کے مراکز میں تبدیل کریں ۔ ماضی کی طرح آج بھی وہی اقوام ترقی اور کامیابی و کامرانی کے منازل طئے کررہی ہیں جنھوں نے تعلیم کو اہمیت دی ، سائنسی علوم کو سینے سے لگایا ، زندگی کے دیگر شعبوں پر خود کو چھائے رکھا ۔ ہم قوموں کی تاریخ میں تواریخ ایام و لمحات کی اہمیت کے بارے میں بات کررہے تھے اس سلسلہ میں ہندوستان کا نام بناء کسی جھجک کے لیا جاسکتا ہے جس نے 130 ارب آبادی پر مشتمل اور ترقی پذیر ملک ہونے کے باوجود چاند پر کمند ڈالنے میں کامیابی حاصل کرلی ۔ انگریزوں نے جس سونے کی چڑیا کو لوٹ کر کنگال بنادیا تھا اسی لوٹے پیٹے ہندوستان نے کامیابی بالخصوص خلائی سائنس کی سمت نہ صرف اپنا سفر جاری رکھا بلکہ آج منزل مقصود پر بھی پہنچ گیا ہے ۔ چندرائن ۔ 2 کی چاند کیلئے روانگی اس کی تازہ ترین مثال ہے ۔ ہندوستان کی تاریخ میں سال 1962 ء کافی اہمیت رکھتا ہے یہ وہ سال ہے جس میں ہمارے ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ڈاکٹر وکرم سارا بھائی سے ملکر انڈین نیشنل کمیٹی فار اسپیس ریسرچ (INCOSPAR) کی بنیاد ڈالی جو ڈپارٹمنٹ آف اٹامک انرجی DAE کے تحت قائم کیا گیا خلائی سائنس کا ادارہ تھا ۔ اُس وقت ہندوستان کے ایک اور ممتاز سائنسداں ڈاکٹر ہومی بھابھا اس کے ڈائرکٹر تھے ۔ بہرحال پنڈت جواہر لال نہرو ، ڈاکٹر وکرم سارا بھائی کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ (INCOSPAR) 1969 ء میں اسرو ( انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن ) میں تبدیل ہوگئی ۔ اس طرح 15 اگسٹ 1969 ء ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم دن بن گیا ۔ جب ہم قوموں کی زندگیوں میں تواریخ کی بات کررہے ہیں تو ہندوستان کی خلائی سائنس میں بڑی جست کہی جانے والی 19 اپریل 1975 ء کی تاریخ کا بھی ذکر کرلیں جب ہمارے ملک کے سائنسدانوں کی کوششوں و محنت سے تیار کردہ پہلے سٹلائیٹ آریہ بھٹ کو روس کی مدد سے خلا میں بھیجا گیا ۔

آپ کو بتادیں کہ ہمارے جنت نشاں ہندوستان کے اس پہلے سٹلائٹ کو قدیم ہندوستان کے مشہور ریاضی داں آریہ بھٹ سے موسوم کیا گیا ۔ بہرحال اسرو نے خلائی سائنس کے اپنے سفر کو بڑی آب و تاب کے ساتھ جاری رکھا اور اس سفر کی کامیابی میں مرد و خاتون سائنسدانوں کا اہم رول رہا ۔ خلائی سائنس کے شعبہ میں ہندوستان کی کامیابی کا کریڈیٹ جہاں ڈاکٹر وکرم سارا بھائی کو جاتا ہے وہیں اس کا کریڈیٹ ابوالقاسم زین العابدین عبدالکلام ( اے پی جے عبدالکلام ) کا بھی اس میں اہم کردار رہا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا ڈاکٹر عبدالکلام کو میزائیل میان آف انڈیا کی حیثیت سے جانتی ہے ۔ ڈاکٹر اے پی جے عبداکلام کے بارے میں بلالحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل ہر ہندوستانی یہی کہتا ہے کہ صدرجمہوریہ ہند کے پروقار عہدہ پر ڈاکٹر کلام جیسی شخصیت فائز ہوئی ہے نہ ہوگی انھوں نے اس عہدہ کو پروقار بنادیا تھا ۔ ڈاکٹر کلام کے اس قول ’’مشکلات سے گذر کر ہی انسان کامیابی سے محظوظ ہوتا ہے ‘‘ ۔ پر ہمارے ملک کے سائنسداں پوری طرح عمل پیرا ہیں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ہی وہ کامیابی حاصل کرتے جارہے ہیں ۔ آج ہندوستانی خلائی سائنس میں امریکہ ، روس ، چین جیسے سرفہرست ملکوں کی صف میں کھڑا ہے اور دنیا کو حیرت ہے کہ اس قدر زیادہ آبادی کے باوجود ہندوستان خلائی سائنس میں وقفہ وقفہ سے ایک نیا کارنامہ انجام دے رہا ہے ۔ پھر ہم تواریخ کی اہمیت کی جانب چلتے ہوئے آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ 22 جولائی 2019 ء کی تاریخ میں خلائی سائنس میں ہندوستان کی ایک بڑی جست طورپر درج کی جائے گی یہ وہ دن ہے جب اسرو کے قابل فخر سائنسدانوں نے چاند کیلئے دوسرا مشن چندریان ۔ 2 (Chandrayan-2) بڑی کامیابی کے ساتھ روانہ کیا اور پوری پوری اُمید ہے کہ 7 ستمبر تک یہ مشن چاند کے قطب جنوبی پر کامیابی سے اُتر جائے گا ۔ اسرو کے سائنسدانوں کے مطابق 7 ستمبر کو چاند کی سطح پر اُترنے سے قبل 15 منٹ اس مشن کیلئے بہت اہم ہوں گے ۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ چندرائن ۔ 2 کی چاند پرروانگی کے مشن پر زائد از ایک ہزار انجینئرس اور سائنسدانوں نے کام کیا اور اس مشن کی یہ خوبی رہی کہ دو خواتین نے اس کی قیادت کی آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ چاند کی جس سطح پر چندرائن 2 اُترنے والا ہے اب تک وہاں کوئی مشن نہیں جاسکا ۔ چندرائن ۔ 2 مشن کا مقصد چاند کے قطب جنوبی کی سطح پر پانی اور معدنیات کی تلاش کے ساتھ ساتھ اس سطح پر آنے والے زلزلوں کے بارے میں بھی تحقیق کرنا ہے اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ چاند کی سطح پر کس قسم کی بو پائی جاتی ہے ۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ چاند مشن چندرائن 2 کو چاند پر بھیجنے کیلئے جو سنکرونس سیٹلائٹ لانچ وہیکل مارک III (GSLV M III) استعمال کی گئی جس کی لمبائی 44 میٹر (14 منزلہ عمارت کے مساوی ) ۔ سیاستدانوں نے چندرائن ۔ 2 کو تین مختلف حصوں میں تقسیم کیا (مثال کے طورپر سیٹلائٹ سے منسلک خلائی گاڑی کا وزن 2379 کیلوہے) جن میں مدار پر گھومنے والا آربٹر ، چاند کی سطح پر اُترنے والا لینڈر اور چاند کی سطح پر گھومنے والا روور شامل ہے ۔ آربٹر مدار میں گھومنے والا حصہ ہے ۔ یہ چاند کی تصویر کشی کرے گا جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ چاند کی سطح پر پائی جانے والی بو کا پتہ بھی چلایا جائے گا یہ آربٹر ماحول کو سونگھنے کی کوشش کرے گا ۔ اب بات کرتے ہیں وکرم کی یہ دراصل چاند کی سطح پر اُترنے والا لینڈر ہے جسے اسرو کے بانی ڈاکٹر وکرم سارا بھائی سے موسوم کیا گیا ہے اس میں چاند پر چلنے والی 6 پہیوں والی گاڑی شامل ہے اس گاڑی پر ایسے آلات نصب کئے گئے ہیں جو چاند کی سطح کی جانچ کریں گے اس گاڑی کا نام پرگیان رکھا گیا ہے ۔ آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ چندرائن ۔ 2پراجکٹ کی منظوری ڈاکٹر منموہن سنگھ کی زیرقیادت یوپی اے حکومت نے دی تھی ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ چندرائن ۔ 2 کو جس GSLV MKIII سے داغا گیا ہے اسے باہوبالی کا نام دیا گیا ہے ۔ (چندرائن ۔2 کا وزن 3850 ہے ) بہرحال چندرائن ۔ 2 کی کامیاب لانچنگ نے یہ بتادیا کہ ہندوستان کی خلائی سائنس کا آغاز بیل بنڈی اور سیکل سے شروع ہوا تھا اور سیاستدانوں و انجینئرس کی کوششوں سے GSLV MKIII کے استعمال تک ہم پہنچ گئے اور اُمید ہے کہ 48 یومی ہمارا یہ خلائی مشن کامیابی سے ہمکنار ہوکر 130 کروڑ ہندوستانیوں کیلئے فخر کا باعث بنے گا ۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ 1961 ء سے اسرو نے 105 سے زائد اسپیس کرافٹس اور 75 لانچ مشنس کی کامیابی سے تکمیل کی ہے اور خلائی سائنس کے شعبہ یا صنعت میں ہندوستان کو ایک اہم مقام حاصل ہوگیا ہے ۔ خلائی سائنس میں ہندوستان کی کامیابی کی بنیاد 1920 ء میں اس وقت پڑچکی تھی جب ایس کے مترا ، سی وی رمیش میگھناتھ سیلم جیسے سائنسدانوں نے خلائی سائنس کے شعبہ میں تحقیق شروع کردی تھی ۔ 2008 ء میں ہمارا ملک چندرائن ۔ 1 کے ذریعہ اپنی دھاک جمانے میں کامیاب رہا۔ اب تو خلائی سائنس تجارت کا بھی ایک بہترین ذریعہ بن گئی ہے۔ مثال کے طورپر اسرو کی اکنامک آرم سمجھے جانے والی Antrix Corporation نے صرف پچھلے تین برسوں کے دوران 62.98 اب ڈالرس کا کاروبار کیا ہے اور اس نے تین برسوں میں 239 سٹلائیٹس لانچ کرتے ہوئے یہ کمائی کی ہے۔ جہاں تک اسرو کا سوال ہے ۔ اسرو فی سٹلائٹ 3 ملین امریکی ڈالرس چارج کرتا ہے جبکہ امریکی ایجنسیاں فی لانچ 100 ملین ڈالرس سے زائد رقم وصول کرتی ہیں ۔ اب یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ ہمارے ملک میں خلائی سائنس کی جو ایک درجن سے زائد اسٹارٹ اپس کام کررہی ہیں وہ 2018 ء سے 2030 ء تک یعنی 12 سال کے دوران 17000 سے زائد چھوٹے سٹلائیٹس لانچ کرسکتی ہیں ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں خلائی ٹکنالوجی کی کئی کمپنیاں وجود میں آچکی ہیں آپ کو یہ بھی بتادیں کہ مارس آربٹر مشن (MOM) منگلیان کی کامیابی نے بھی خلائی سائنس کے شعبہ میں ہندوستان کی دھاک بٹھادی ہے ۔ NASA, ROSUOMUS اور یوروپین اسپیس ایجنسی بھی اسرو کی کامیابی پر حیراں ہیں۔ اب تو ہندوستان نے سورج کیلئے ہندوستان کے پہلے مشن ADITYAL-1 ، 2020 ء کے اوائل میں بھیجنے کا اعلان کیا ہے ۔

ٹیپو سلطان ہندوستان میں خلائی سائنس کی شان
ویسے بھی راکٹ ٹکنالوجی میں نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے سائنسدانوں کو 18 ویں صدی میں میسور کے حکمراں حیدر علی نے اپنی اختراعی صلاحیتوں کے ذریعہ اگے بڑھانے کا کم کیا۔ انہوں نے دھماکو مادوں سے بھری راکٹس استعمال کرکے سب کو حیران کردیا ۔ بعدمیں ان کے فرزند شیر میسور سلطان فتح علی صاحب المعروف ٹیپو سلطان شہید ؒ نے اس برودی راکٹ کو ایک نئی شکل عطا کرتے ہوئے دشمن کے دانت کھٹے کردیئے۔ ٹیپو سلطان کی یہ راکٹ دو کیلو میٹر فاصلے تک دشمن کے ٹھکانوں کو نشانہ بناسکتی تھی۔ حضرت ٹیپو سلطان شہید ؒ کی اُس راکٹ نے ہندوستان میں خلائی سائنس کو ایک نئی جہت عطا کی۔