اسلامی تعلیمات و اخلاقیات سے دوری مسلمانوں کے زوال کا سبب

   

مولانا سید زبیر ہاشمی، استاذ جامعہ نظامیہ
اللہ تعالیٰ نے آج تک جتنی بھی قومیں بنائی ہے ان تمام نے عروج و زوال کو دیکھا ہے اور اسکی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ ان ہی کی کرتوتوں کا نتیجہ ہے، چاہے وہ بنی اسرائیل ہو یا قوم عاد، ثمود و لوط ان تمام نے اپنے باطل نفس کی پیروی کی جسکا نتیجہ تھا کہ انھیں بدنامی و خدا کے غضب کا شکار ہونا پڑا اور آج امت مسلمہ بھی اسی نقشِ قدم پر گامزن ہے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ امت مسلمہ نے کبھی عروج کا زینہ نہ چڑھا ہو، بلکہ ابتدائی دور سے ہی وہ عروج پر تھیں جس نے ایسے ماہر شخصیات کو جنم دیا جنھوں نے اپنے میدانِ کار میں نمایاں کارنامے انجام دئیے نہ صرف یہ بلکہ دنیا کو ایک نئی راہ دکھائی جسکی ابتداء نبی کریم علیہ السلام نے کی تھی جن کے بارے میں کہا گیا کہ ’’دنیا نے جینا سیکھا اس نبی ﷺ کے اصولوں سے‘‘ جن کے اخلاقِ کریمہ کو اختیار کرکے کئی حیوان صفت لوگ دنیا کو امن اور یکجہتی کے ساتھ چلانے والے حکمراں بن گئے، جنھوں نے جس میدان میں اپنا قدم رکھا وہاں پر ایسے کارنامے انجام دئیے جنکی مثالیں تاریخ آج تک دینے سے قاصر ہے. ماہر فلکیات، ماہر کیمیاء، ماہر نفسیات کئی ساری مثالیں ہیں جو مسلمانوں کے عروج کی داستان بیان کرتی ہیں لیکن افسوس آج ان ہی کی ایجادا ت کو مغربی ممالک نے اختیار کرکے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔
قرآن مجید سے دوری:
انتہائی غور و فکر کرنے والا اور سب سے اہم سبب یہ ہے کہ آج امت مسلمہ نے اُس نعمت خداوندی کو فراموش کردیا جو ہدایت کی کتاب کے طور پر نازل ہوئی جس میں ارشاد ہوا ’’هُدًى لِّلنَّاسِ‘‘ تمام انسانوں کے لئے ہدایت، لیکن مسلمانوں نے اس احسان کا بدلہ ایسا دیا کہ آج قرآن مجید طاقوںکی زینت بنی ہوئی ہے ، جس کے پڑھنے کو اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ عام مسلمان اسکے سمجھنے سے تو دور پڑھنے کو بھی صرف حفاظ اور علماء کی ذمہ داری سمجھتے ہیں جس کا نقصان خود اُمت مسلمہ کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
دین کے اصولوں سے انحراف:
ایک اور سبب یہ بھی ہیکہ امت نے دین کی اصل کو ذہنوں سے نکال دیا اور دوسری ناکام قوموں کی طرح اپنے مطلب کے اور آسان احکامات کا تعارف کرادیا اور خیر امت و امت وسط کی ذمہ داریوں کو تقریباً مسترد کردیا جس کا نتیجہ یہ رہا کہ جو دین زندگی کے ہر شعبہ کے لیے مکمل نظام حیات بن کر آیا تھا وہ صرف مقامات محدود میں قید ہوکر رہ گیا۔
فرقہ بندی :
ایک اور انتہائی حساس مسئلہ یہ ہیکہ مسلمانوں نے آپس میں فروعی اختلافات کو بنیاد بنا کر فرقہ بندی شروع کردی۔اختلافی مسائل کو اصل مسئلہ پر ترجیح دیکر آپس میں افراط و تفریط کرنے لگے اور ’’وَلَا تَفَرَّقُوْا‘‘ کے حکم کو پامال کردیا جس کا نتیجہ ہہ ہوا کہ باطل قوموں نے امت پر اس طرح حملہ کردیا جس طرح اللہ کے نبی محمد ﷺنے فرمایا تھا کہ ’’دنیا کی قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑےگی جیسے بھوکے بھیڑئیے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘‘اور آج حال یہ ہوگیا ہیکہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی کوئی طاقت صحیح معنوں میں نہیں اُبھر رہی ہے۔
تعلیمی پسماندگی:
یہ بات یقینی ہیکہ مسلمانوں نے جس میدان میں قدم رکھا، کامیابی ان کے قدم چومتی رہی اور ایسے کارنامے انجام دئیے جن کا بدلہ اُمت کئی صدیوں تک ادا نہیں کرسکتی، لیکن آج اس تیز رفتار دور میں مسلمان اپنی سست روش میں مبتلا ہے، جس قوم کو شروعات میں ہی ’’اِقْرَاْ‘‘ کی تعلیم دی گئی ہو وہی قوم آج علم کے معاملے میں کوسوں دور ہے ترقی کی منزل تو ثانوی چیز ہے لیکن حصول علم کا بحران دن بہ دن بڑھتا جا رہاہے۔
اللہ تعالیٰ ہم تمام کونیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین
zubairhashmi7@gmail.com