اسلامی قانون کا نفاذ اور ایمان کا تقاضہ

   

(گزشتہ کا تسلسل)
دراصل اجماع اور قیاس، اجتہاد ہی ہیں، کیونکہ اجتہاد کی دو شکلیں ہو سکتی ہیں، یا تو یہ کہ کوئی فرد واحد بذات خود اجتہاد کرے، یا یہ کہ کچھ لوگ، ایک گروہ، ایک جماعت کسی معاملے میں اجتہاد کرکے ایک متفقہ فیصلہ کرے۔ پہلی صورت قیاس کی ہے اور دوسری اجماع کی۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قیاس انفرادی اجتہاد ہے اور اجماع اجتماعی اجتہاد ہے۔
بعض لوگ اجتہاد کو بالکل آزادانہ استعمال رائے کے معنی میں لے لیتے ہیں، جو سراسر غلط ہے۔ اسلام کے قانونی نظام میں اصل آئینی حیثیت قرآن و سنت کو حاصل ہوتی ہے۔ انسان جو قانون سازی کرتے ہیں، وہ لازماً اسی آئین سے ماخوذ ہونی چاہئے یا پھر ان حدود کے اندر ہونی چاہئے، جن میں آئین قرآن و سنت استعمال رائے کی اجازت دیتا ہو۔ اس سے بے نیاز ہوکر جو اجتہاد کیا جائے وہ نہ اسلامی اجتہاد ہے اور نہ اسلام کے قانونی نظام میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔اجتہاد ایک انتہائی اہم اور نازک کام ہے، یہ ہر فرد کے بس کا روگ نہیں۔ اس کام کے لئے کچھ شرائط ہیں، جن سے بے نیاز ہوکر اجتہاد کرنا اسلام کی خدمت نہیں، بلکہ اسلام کی مرمت ہے۔ اجتہاد کے شرائط درج ذیل ہیں:
(۱) شریعت الہی پر ایمان، اس کے برحق ہونے کا یقین، اس پر مخلصانہ عمل کا ارادہ، اس سے فرار کی خواہش رتی برابر بھی دل میں نہ ہو۔ مقاصد، اصول اور اقدار کسی دوسرے ماخذ سے لینے کی بجائے، خدا کی شریعت سے لینا۔
(۲) عربی زبان اور قواعد صرف و نحو پر عبور، کیونکہ دین کے بنیادی ماخذ یعنی قرآن و حدیث عربی میں ہیں۔
(۳) قرآن و سنت کا وسیع علم، نہ صرف جزئیات بلکہ کلیات اور مقاصد شریعت کو اچھی طرح سمجھ لے۔ شریعت کی مجموعی اسکیم اور زندگی میں اس کے نفاذ کے طریقہ کار کو اچھی طرح سمجھ لے۔
(۴) پچھلے مجتہدین کے کام سے واقفیت، جس کی ضرورت صرف اجتہاد ہی کے لئے نہیں، بلکہ قانونی ارتقاء کے تسلسل کے لئے بھی ہے۔ ماضی کی شاندار عمارتوں کو ڈھاکر نئی عمارت کھڑی کرنے کا جذبہ نہ ہو۔ سابقہ تحقیق کو برباد کرکے ازسرنو تحقیق کرنا عقل مندوں کا شیوہ نہیں ہے۔(۵) عملی زندگی کے حالات و مسائل سے واقفیت، کیونکہ شریعت کے احکام کو ان ہی پر منطبق کرنا ہے۔
(۶) مجتہد اسلامی معیار اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت و کردار کا حامل ہو، تاکہ لوگ دین کے معاملے میں اس پر اعتماد کرسکیں، جب کہ تقویٰ خود مجتہد کو اپنے نفس کی دراندازیوں کے لئے ضروری ہے۔
ان شرائط پر مبنی جو اجتہاد ہوگا، وہی صحیح اور درست ہوگا، نہ کہ ان لوگوں کا اجتہاد جو ترجموں کی مدد سے قرآن پڑھ لیتے ہوں اور احادیث کو دفتر بے معنی سمجھتے ہوں۔ قوم کے گدوں پر لیٹ کر کتابچوں کے سرسری مطالعہ سے تحقیق کا فریضہ انجام دیتے ہوں اور جن کے نزدیک سلف صالحین اور ائمہ دین طفل مکتب ہوں۔ (شریعت کے ماخذات کا بیان ختم ہوا)
اسلام کا تعزیراتی نظام
حدود و تعزیرات کا ادارہ معاشرہ کے تحفظ کا اہم ادارہ ہے۔ بنیادی طورپر اسلام زندگی کے ہر شعبہ کا نظام اخلاقیات پر قائم کرتا ہے اور ایمان کو اپنے قوانین کی قوت نافذہ بناتا ہے، لیکن ایک قوت قاہرہ خارج میں بھی بہرحال ضروری ہے۔ اگر ہر قاعدے اور ضابطہ کو صرف انسان کے اخلاق و ایمان پر چھوڑ دیا جائے تو کبھی بھی مکمل نظم قائم نہیں ہوسکتا۔ مکمل نظم کے لئے ضروری ہے کہ ایک قوت قاہرہ خارج میں بھی موجود رہے۔ نظم ہمیشہ قانون کے ساتھ دو طرح کے رویوں سے قائم ہوتا ہے، ایک قانون کا احترام اور دوسرے قانون کا خوف۔ قانون کا احترام ایک اعلی و ارفع قدر ہے، لیکن معاشرے کا ہر فرد قدر کا یکساں حامل نہیں ہوتا۔ مختلف مواقع زندگی میں ایسے پیش آہی جاتے ہیں، جب یہ قدر کمزور پڑجاتی ہے۔
اس کے سہارے کے لئے قانون کا خوف ضروری ہو جاتا ہے، اسی لئے اسلام اپنے قواعد و قوانین کو صرف واعظ کی مشفقانہ نصیحت پر نہیں چھوڑتا، بلکہ اس کے ساتھ قوانین کے تحفظ کے لئے ریاست کے ہاتھ میں حدود تعزیرات کا تازیانہ بھی دیتا ہے۔
اللہ تعالی نے مؤمنین کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا ’’اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘ (سورۃ التوبہ۔۱۱۲) یعنی پورے نظام زندگی میں اور زندگی کے تمام شعبوں میں جو حدود مقرر کردیئے گئے ہیں، مؤمنین ان کی پاسداری کرتے ہیں، ان کے اندر رہتے ہیں، ان حدود کو توڑکر باہر نہیں جاتے، من مانی کارروائیاں نہیں کرتے اور نہ ان خدائی قوانین کی جگہ اپنے خود ساختہ قوانین نافذ کرتے ہیں۔ نیز اس میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ ان حدود کو قائم کرتے ہیں اور انھیں ٹوٹنے نہیں دیتے۔
دین و دنیا کی تفریق اسلام کے نزدیک ایک جاہلانہ تصور ہے، جس کی کوئی گنجائش اسلام اپنے اندر نہیں رکھتا۔ اس کے نزدیک حدود تعزیرات دین ہی کا ایک حصہ ہے۔ دین صرف نماز روزہ ہی کا نام نہیں، بلکہ اسلام کا قانون فوجداری بھی دین ہی ہے۔ حد زنا بین کرنے کے بعد قرآن کہتا ہے: ’’اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ ’’اللہ کے دین‘‘ کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (سورۃ النور۔۲)
اس آیت میں واضح طورپر ’’قانون فوجداری‘‘ کو ’’دین اللہ‘‘ کہا گیا ہے اور ’’اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو‘‘ کے الفاظ سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اسلام کے قانون فوجداری کو پوری طرح قائم کرنا اور مجرم پر نفاذ حد کے سلسلے میں ترس نہ کھانا ایمان کا تقاضہ ہے۔