اسلامی ممالک آپسی سر پھٹول میں مصروف

   

ظفر آغا
حد ہوتی ہے آپسی اختلافات کی! جب اسرائیل کا کچھ بگاڑ نہیں سکے تو آپسی سر پھٹول میں لگ گئے۔ یہ عالم ہے خود کو اسلامی ملک کہنے والے مسلم ممالک کا۔ ایران تو ان دنوں خود کو سپر پاور سمجھ رہا ہے۔ مغربی ایشیا کے ہر ملک کے پھٹے میں اس کا پیر ہونا لازمی ہے۔ تب ہی تو کبھی پاکستان تو کبھی عراق اور دمشق، ایران نے آگے پیچھے کچھ دیکھا نہیں بس ایک دم سے میزائل مار دیا۔ جب پاکستان، عراق اور شام نے اس حملے پر اعتراض کیا تو ایران حکومت کا جواب یہ تھا کہ ان ممالک میں ایران کے خلاف سازش چل رہی ہے۔ ایران کا یہ الزام ہے کہ پاکستان، شام اور عراق میں پنپ رہے جہادی گروپ ایران کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کر رہے ہیں۔ ایران کا یہ الزام کوئی بے سر پیر کی لن ترانی نہیں۔ ابھی پچھلے ماہ ایرانی ملیشیا کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی پر اکٹھا کثیر مجمع میں ایک زبردست دھماکہ ہوا جس کے سبب 300 سے زیادہ ایرانی افراد مر گئے۔ ایرانی حکومت نے اس کے جواب میں فوراً یہ بیان دیا کہ وہ جانتی ہے کہ اس دہشت گردانہ حملے کے لیے ذمہ دار امریکی اور اسرائیلی حکومتیں ہیں اور وہ اس کا بدلہ جلد لیں گے۔ اس بیان کے دو تین ہفتوں کے بعد ہی ایران نے پاکستان، عراق اور شام پر میزائل سے حملہ کر دیا۔ ایرانی حکومت نے یہ الزام لگایا کہ ان ممالک میں سرگرم جہادی گروپ نے امریکہ کے اشارے پر قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔ اس بیان میں صداقت ہے، اسلامی ممالک میں مختلف جہادی گروپ امریکہ کے اشاروں پر بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ یہ شرارت ان کی ہی ہو جس کے سبب ایران نے حملہ کیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اور عراق نے ایران سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کر دیے۔
جیسا ابھی عرض کیا کہ یہ موقع حماس کی مدد کا ہے نہ کہ آپس میں ایک دوسرے پر حملے کرنے کا۔ مغربی ایشیا میں فی الوقت صورت حال اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ ماہرین کو یہ ڈر ہے کہ علاقے میں ایک سنگین جنگ چھڑ سکتی ہے جو پوری دنیا کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن حالات اس قدر سنگین کیوں ہو گئے۔ سب واقف ہیں کہ فلسطینی گروپ حماس نے اکتوبر کے مہینے میں اسرائیل پر حملہ کیا جس کے سبب علاقہ میں نہ صرف جنگ چھڑ گئی بلکہ اس جنگ میں امریکہ اور مغربی ایشیا کے تمام ممالک پھنستے چلے گئے۔ لیکن ضرورت یہ تھی کہ سب مل کر حماس کی مدد کرتے اور اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرتے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مغربی ایشیائی ممالک آپس میں ایک بڑی جنگ کر بیٹھیں گے۔ حالات روز بہ روز اتنے سنگین ہوتے جا رہے ہیں کہ کبھی بھی یہ بات سچ ہو سکتی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایسی کسی جنگ کو روکا کیسے جا سکتا ہے۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایسی کسی جنگ کو محض ایران ہی روک سکتا ہے۔ قاسم سلیمانی نے لگ بھگ تمام اسلامی ممالک کے لیے گروہ قائم کیا جو کبھی بھی ایرانی حکومت کے اشارے پر علاقے کو جنگ میں جھونک سکتے ہیں۔ اور انھوں نے حالیہ حملوں کے ذریعہ اس بات کا اشارہ کر دیا ہے کہ اگر پانی سر سے اوپر ہو گیا تو علاقے میں جنگ بھی ہوگی۔ اس سلسلے میں پاکستانی حکومت نے دو روز قبل مثبت قدم اٹھایا ہے۔ پاکستانی حکومت نے یہ اعلان کیا کہ اس کی ایران سے کوئی دشمنی نہیں بلکہ وہ ایران کے ساتھ امن برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ ادھر ایران نے جواباً یہ کہا ہے کہ وہ بیٹھ کر معاملے کو طے کرنے کے لیے تیار ہے۔ بس یہی وقت کی ضرورت ہے۔
اسرائیل کی غنڈہ گردی کا یہ معاملہ ہے کہ مقبوضہ علاقہ میں جنگ پھر سے تیز کر دی، جس کا نتیجہ ہے کہ اس جنگ میں اب تک تقریباً 24 ہزار افراد کے مارے جانے کی خبر ہے۔ اسرائیل نے امریکہ کا یہ مطالبہ بھی رد کر دیا ہے کہ وہ حالیہ جنگ ختم ہونے کے بعد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ممالک جلد از جلد مل کر اسرائیل کو سمجھائیں، حماس کے خلاف اسرائیلی جنگ ختم ہو تاکہ مقبوضہ فلسطینی علاقہ میں جنگ بندی قائم ہو سکے اور وہاں چل رہی نسل کشی کسی طرح بند ہو جائے۔