اسلام کی اشاعت نظریاتی غلبہ کا نتیجہ نہیں

   

ڈاکٹر محمد اکرم ندوی (آکسفورڈ)
ستر برسوں سے فلسطین کے باشندے جس نسل کشی کا سامنا کررہے ہیں، جس طرح ان کے شہر اور گاؤں تباہ کئے گئے، انہیں بے گھر کیا گیا، اور زبردستی جلاوطن کیا گیا، اس نکبہ اور وحشیانہ سلوک کے مطالعہ سے انسانیت کی روح کانپ اٹھتی ہے۔ دنیا اس پوری تاریخ کو تقریباً فراموش کرچکی تھی، 7 اکتوبر (2023ء) سے نکبہ کی تاریخ دہرائی گئی۔ فلسطینیوں کی دوبارہ نسل کشی شروع ہوئی، یہ دردناک حوادث سوشل میڈیا کے واسطہ سے براہ راست پوری دنیا میں دیکھے جارہے ہیں۔ خطرناک ترین ہتھیاروں سے بمباری ہو رہی ہے، گھر تباہ کئے جارہے ہیں، اسپتال، اسکول، کالجس اور بنیادی انسانی ادارے ڈھائے جارہے ہیں۔ بچے، عورتیں، بوڑھے اور امن پسند شہریوں کا قتل عام ہو رہا ہے، یہ سارے دل دہلانے والے مناظر دنیا کی نیند اڑانے کے لئے کافی ہیں۔
دنیا کے مہذب اور امن پسند تعلیم یافتہ مردو عورت جہاں اس وحشتناک بمباری پر لرزہ براندام ہیں، وہیں انہیں شدید حیرت ہے کہ کس طرح فلسطینی مرد و عورت، اور بچے اور بوڑھے ثابت قدم ہیں۔ غیر معمولی صبر کا مظاہرہ کررہے ہیں اور خدا پر بھروسہ کی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ اس حیرت کے نتیجہ میں انہوں نے اس صبر و توکل کا راز معلوم کرنے کے لئے اسلام کا مطالعہ شروع کیا اور قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے کے طرف توجہ کی نتیجہ کے سینکڑوں لوگ اسلام میں داخل ہوئے، بلکہ بعض مغربی تجزیوں کے مطابق یہ تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے اور اسلام میں داخلہ کا یہ عمل بدستور جاری ہے۔
اس میں ادنی تامل نہیں کہ اسلام خدا کا برحق دین ہے، یہ عقل و فطرت کے مضبوط ترین اصول، قوانین اور دلائل پر قائم ہے، تاہم اسلام کے نظریاتی اور فلسفیانہ غلبہ کی ایسی تشریح جو ذہنوں کو مطمئن کرسکے ممکن نہیں یا کم از کم آسان نہیں۔ ہر عقلی توجیہ کا مقابلہ میں دوسرے کی عقل توجیہ پیش کی جاسکتی ہے۔ عقلی بنیادوں پر کسی نظریہ کا اثبات یا اس کی تردید ثابت کرنے والوں اور تردید کرنے والوں کی ذہنی مہارت پر منحصر ہے۔ ایک شخص جس چیز کو دلیل سے ثابت کرتا ہے، دوسرا شخص جو اس سے زیادہ ذہین ہے اسے رد کرسکتا ہے، ایک فلسفی جس چیز کی تردید کرتا ہے دوسرا بڑا فلسفی اسے ثابت کرسکتا ہے۔
اس کی مثال ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے کرکٹ کے میچس ہیں، کبھی ٹیم انڈیا جیتتی ہے اور کبھی پاکستان کی ٹیم، ہر شخص جانتا ہے کہ انڈیا کی ٹیم کی فتح کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہندو مذہب سچا مذہب ہے اور اسلام باطل ہے، اسی طرح پاکستان کی ٹیم کے غلبہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام دین برحق ہے اور ہندو مذہب خرافات ہے، بلکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ جیت اور ہار ان ٹیموں کی کارکردگی پر منحصر ہے۔ آج جو ٹیم جیتی ہے کل وہ ہار بھی سکتی ہے اور جو ٹیم ہاری ہے وہ ایک دن جیت بھی سکتی ہے۔ یہ صرف امکان کی بات نہیں، بلکہ عملاً ایسا ہی ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا۔ کل وہی لوگ انہیں بنیادوں پر ہاریں گے، یہی وجہ ہے کہ جو معدودے چند افراد اسلام میں اس لئے داخل ہوئے کہ کسی تماشا گاہ میں مسلمان مناظر نے اپنے مد مقابل کو ہرا دیا تھا وہی لوگ دوبارہ اسلام سے اس لئے نکل گئے کہ کسی اور زیادہ ذہین شخص نے مسلم مناظر کی دلیلوں کی دھجیاں اڑادیں۔
جن لوگوں نے عصر حاضر میں یا مسلمانوں کی طویل تاریخ میں اسلام کی اشاعت اور مقبولیت کے رجحان کا جائزہ لیا ہے وہ سب اس پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کی عملی زندگی اسلام کی سب سے بڑی دعوت ہے، یعنی اسلام کی اصل طاقت اس کی نظریاتی برتری یا اس کے فلسفیانہ عجائب نہیں، بلکہ یہ ہے کہ مسلمان کس طرح اسلام کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرتے ہیں؟ کس طرح اسلام ان کے اعمال ، جذبات اور محرکات پر حکمرانی کرتا ہے؟ کس طرح خدا پر ایمان ان کے قلب و نظر میں انقلاب برپا کردیتا ہے؟
کتنے لوگ اس لئے اسلام میں داخل ہوئے کہ مسلمان کس طرح مہمان نوازی کرتے ہیں؟ کس طرح محتاجوں کی مدد کرتے ہیں؟ کس طرح کار خیر میں پیش پیش رہتے ہیں؟ مغرب کے مخلوط جنس پرست ماحول میں مسلمان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا پاک دامن رہنا، اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا، شرم و حیا کے خصال سے مزین ہونا اور عفت و پاکدامنی پر ثابت قدم رہنا ان کے ساتھیوں اور دوستوں کے نزدیک کسی معجزہ سے کم نہیں، بہت سے لوگوں نے یہ مثالیں دیکھ کر اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا اور مسلمان ہونے کے بعد ان کے اسلام میں مزید پختگی آئی۔جب مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے، وہ صبر کرتے ہیں اور لوگوں کے سوالوں کے جواب میں کہتے ہیں کہ آخرت میں اللہ تعالی انہیں بہترین بدلہ دے گا، ان کا یہ جواب سن کر لوگ آخرت کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا شروع کرتے ہیں جو ان کے لئے محض غیب ہے اور جلد ہی وہ اس غیب پر ایمان لاتے ہیں اور خدا کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں۔آپ اسلام قبول کرنے والوں سے ملاقاتیں کریں، آپ پر یہ حقیقت واضح تر ہوتی جائے گی، میں نے بے شمار نو مسلموں سے سوالات کئے سب کے جوابات اس پر متفق ہیں کہ کسی نہ کسی مسلمان کی عملی زندگی نے انہیں متاثر کیا۔
آپ شام، عراق، مصر، ایران، وسطی ایشیا، ہندوستان، انڈونیشیا، ملائیشیا اور دنیا کے دور دراز علاقوں کی تاریخوں کا مطالعہ کریں، ہر جگہ نظر آئے گا کہ نظریاتی اسلام نے نہیں بلکہ عملی اسلام نے انسانوں کے دماغوں اور دلوں کو متاثر کیا، مسلمانوں کی نمازوں، روزوں، صدقوں اور اخلاق کے نمونوں نے زندگیاں بدل دیں۔فلسطین کے حالیہ المیہ کا ایک خوش نما پہلو اسلام کی اشاعت ہے، اس میں تمام مسلمانوں کے لئے یہ پیغام پنہاں ہے کہ اسلام جب زندگی میں آتا ہے تو اس کی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اسلام کا یہی وہ عملی پہلو ہے جس نے ناقابل شکست تاتاریوں کو حلقہ بگوش اسلام کردیا اور یہی وہ پہلو ہے جو آج بھی مغرب کی غیر معمولی مادی طاقت کے باوجود اس کے باشندوں کو اسلام کی طرف راغب کررہا ہے۔ کاش کہ ہم اپنی طاقت کا راز دریافت کرلیں اور ’’وائنم الأعلون ان کنتم مؤمنین‘ ‘کی تفسیر سمجھنے کی کوشش کریں۔