اسمبلی نتائج ‘ بی جے پی کے حوصلے بلند

   

پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے نتائج نے آئندہ پارلیمانی انتخابات سے قبل بی جے پی کے حوصلے بلند کردئے ہیں۔ بی جے پی کو تین ریاستوں میں کامیابی ملی ۔ دو ریاستیں اس نے کانگریس سے چھین لی ہیں جبکہ ایک ریاست میں اس نے اپنا اقتدار برقرار رکھا ہے ۔ کانگریس کیلئے صرف تلنگانہ وہ ریاست رہی جہاںاس نے بی آر ایس کو شکست دیتے ہوئے اپنی کامیابی کے ذریعہ ساکھ بچائی ہے ۔ کانگریس کیلئے انتخابی نتائج حالانکہ مشکل ہیں لیکن ان نتائج کا تجزیہ اگر کیا جائے تو کانگریس اور بی جے پی میں زیادہ فرق نہیں رہا ہے ۔ ارکان اسمبلی کی تعداد ہو یا پھر ووٹوں کا تناسب ہو ۔ دونوں ہی معاملات میں بی جے پی کو حالانکہ سبقت حاصل ہوئی ہے لیکن یہ سبقت بہت زیادہ نہیں ہے ۔ بی جے پی کی یہ کامیابی یقینی طورپر بڑی جیت ہے اور انتخابی نتائج میں نشستوں کی تعداد اور ووٹ تناسب سے زیادہ اقتدار کے حصول کو اہمیت حاصل رہتی ہے ۔ بی جے پی نے یہ کامیابی حاصل کی ہے اور کانگریس کو اس معاملے میں تلنگانہ کے سوائے ہر ریاست میں ناکامی ہوئی ہے ۔ کانگریس کے ووٹوں کا تناسب بہتر ہی کہا جاسکتا ہے تاہم معمولی تناسب سے یہ ووٹ نشستوں میں تبدیل نہیں ہوسکے ہیں۔ کانگریس کیلئے ضروری ہے کہ وہ پارلیمانی انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے ووٹ شئیر میں اضافہ کیلئے اقدامات کرے اور نشستوں کی تعداد میںاضافہ کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ بی جے پی کا جہاں تک سوال ہے تو یہ کامیابی اہمیت کی حامل ضرور ہے اور انڈیا اتحاد کی تشکیل کے بعد سے اور خاص طور پر کرناٹک میں بی جے پی کی شکست کے بعد سے پارٹی کیڈر کے جو حوصلے پست ہونے لگے تھے تین ریاستوں کے نتائج نے ان میں نئی جان ضرور پیدا کردی ہے ۔ بی جے پی قائدین اور مرکزی قیادت کے لب و لہجہ میں بھی تبدیلی آگئی ہے ۔ مرکزی قائدین کے تیور بھی بدلنے لگے ہیں اور ان میں جوش و خروش پیدا ہونے لگا ہے ۔ یہ بات آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے اہمیت کی حامل ضر ور ہے ۔ بی جے پی اور اس کی قیادت اب کارکنوں کے حوصلے کو بلند کرنے کے اقدامات کرتی رہے گی ۔
بی جے پی نے انتخابی مہم کے دوران جس طرح سے فرقہ وارانہ نوعیت کے مسائل کو ہوا دی تھی اس کا اسے فائدہ ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں انتخابی بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ یہ دعوے بھی کئے جا رہے ہیں کہ ووٹنگ مشینوں میں الٹ پھیر کیا گیا ہے ۔ ووٹنگ مشینوں کو تبدیل کیا گیا ہے ۔ کئی مقامات سے رائے دہی کے بعد ووٹنگ مشین بھی دستیاب ہوئے ہیں۔ ان الزامات کے ذریعہ کانگریس بی جے پی کو نشانہ بنا رہی ہے تاہم یہ بات حقیقت ہے کہ نتائج کا جب اعلان ہوجاتا ہے تو یہی بات زیادہ معنی رکھتی ہے کہ کامیابی کس کو حاصل ہوئی ہے اور کس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ کانگریس اگر انتخابی شکست کے بعد کچھ دیر کیلئے یہ مسئلہ اٹھاتی ہے تو اس سے کوئی واضح حل دریافت نہیں ہوسکتا اس کیلئے ضروری ہے کہ ایک منصوبہ بند حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے کام کیا جائے ۔ جہاں تک بی جے پی کی بات ہے تو وہ تین ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں ملی کامیابی کے جوش و خروش کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے گی ۔ آئندہ مہینے بی جے پی حکومت کی جانب سے ایودھیا میں رام مندر کا بھی باضابطہ افتتاح عمل میں آنے والا ہے ۔ اس کو بھی بی جے پی اپنے ایک بڑے کارنامے کے طور پر پیش کررہی ہے ۔ حالانکہ رام مندر کی تعمیر سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے ممکن ہو رہی ہے اور یہ کوئی عوامی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مذہبی اور اعتقاد کا مسئلہ ہے ۔ تاہم بی جے پی اس طرح کے مسائل سے سیاسی اور انتخابی فائدہ اٹھانے میں مہارت رکھتی ہے اور اس بار بھی ایسا کر رہی ہے ۔
کانگریس کیلئے بی جے پی کے اس بڑھتے ہوئے جوش و خروش سے نمٹنا زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا ۔ کانگریس کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ عوام پر اثر انداز ہونے والے پروگرامس اور پالیسیاں تیار کرے ۔ بی جے پی کے تیور بتدریج جارحانہ ہیں اور وہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے مزید جو ش و خروش کارکنوں میں پیدا کریگی ۔ اس کیلئے متنازعہ مسائل کا بھی سہارا لیا جاسکتا ہے بلکہ ان ہی پر انحصار کیا جاسکتا ہے ۔ بی جے پی کی یہ حکمت عملی اسمبلی انتخابات میں کامیاب رہی تاہم پارلیمانی انتخابات پر اس کے اثرات کتنے ہونگے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔