’’ اسیر مصلحت ِ وقت ہیں یہ اہلِ قلم ‘‘

   

نفیسہ خان

ہم مسلمان ہیں ، اُمت محمدیہ ؐ کے علمبردار ہیں ، اتنے سچے اتنے پکے مومن کہ نہ صرف صوم و صلوٰۃ کے سختی سے پابند ہیں بلکہ ارکان اسلام کی نہ صرف یہ کہ ادائیگی کرتے ہیں بلکہ ہمارے غیر اسلامی رسومات مثلاً مانجھے، سانچق، چوتھی، سالگرہ، تسمیہ خوانی ، چھلہ ، چھٹی سے لے کر کتابوں کی رسم اجرائی ، تہنیتی جلسوں ، ادبی اجلاس، گلپوشی ، شال پوشی سے لے کر شادی، ولیمہ، زیارت، چہلم ، گویا ہر تقریب و مجلس میں بیچاری نماز کو ضرور گھسیٹتے ہیں اس کے بغیر اپنا دعوت نامہ لکھ ہی نہیں سکتے۔ بعد نمازِ فجر سے بعد نمازِ عشاء تک ان تقاریب کا اندراج ہوتا ہے اور خود مسلمان قسم کھائے بیٹھے ہیں کہ کبھی کسی دن، کسی وقت، کسی تقریب میں اس کی پابندی نہیں کریں گے۔ بعد نماز مغرب کا مطلب خدارا آپ 7 بجے نہ سمجھیں کیونکہ پروگرام شروع ہونے تک پھر مؤذن کو خدا یاد آجاتا ہے۔ اور آپ نعوذ باللہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا۔ اُردو کے باذوق سامعین خوب جانتے ہیں کہ مہمان خصوصی ، مہمان اعزازی ، مہمان سخاوت، مہمان پردیسی۔ کون کون ہیں اور ان کی آمد کب تک متوقع ہے۔ شہ نشین پر کرسیوں کی تعدادآپ کو بتادے گی کہ اس میں کتنے آپ کے ذوق کی تسکین کریں گے اور کتنے ایسے لوگ ہوں گے جو خود نمائی کے احساس کے ساتھ ان پر براجمان ہوں گے اور بعد میں آپ کی سمع خراشی کرتے رہیں گے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب گھڑی کی سوئیاں دس گیارہ بجے کا اعلان کرنے لگتی ہیں تب آپ کو اس محفل میں شرکت کرنے کا نہ صرف افسوس ہوگا کہ بلکہ شدت سے احساسِ بیزاری ستانے لگے گا کیونکہ کنوینر محفل یا مشاعرہ کسی صاحب حیثیت کو پھانس کر اس کی خوشامد میں زمین آسمان کے قلابے ملا کر اپنی لچھے دار باتوں سے اسے نہ صرف شہر حیدرآباد کا بلکہ بیرونی ممالک کا بھی سب سے قابل قدر شخص ، اُردو کا مداح، ادب نواز قاری بناکر پیش کرنے کی انتھک کوشش کرے گا ، وہ آپ کو یقین دلائے گا کہ ادباء و شعراء کی ساری کتابوں کو اس نے کھنگال دیا ہے۔ جبکہ بیچارے نے کبھی کسی کتاب کی ورق گردانی بھی نہ کی ہوگی‘ لیکن دروغ گوئی اس لئے بھی ضروری ہے کہ پھولوں کے ہار، شالوں اور جلسہ گاہ کے جملہ اخراجات اسی سے وصول کئے گئے ہوتے ہیں۔ مسکین شعراء و ادباء بھی بیچارے اپنی پذیرائی کیلئے اتنے ترسے ہوئے ہوتے ہیں کہ ٹولوں کی شکل میں اس عزت افزائی کو من و عن قبول کرلیتے ہیں، یہ بھی نہیں سوچتے کہ دینے والا کیا سچ مچ ان کا مداح ہے، اُردو کا قاری ہے جس کو شاعر و متشاعر کا فرق معلوم ہے۔ اچھا بُرا کلام یا نثر لکھے والے تمام شاعر و ادباء کو محمود و ایاز کا فرق مٹاکر ایک ہی صف میں لاکھڑا کردیتے ہیں بلکہ بٹھادیتے ہیں، پھر ایک کیلئے تعریفوں کے پُل باندھنے شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں اردو زبان ماتم کناں ضرور ہوتی ہوگی اور محبِ اُردو ، خدمت گار اُردو، محسن اُردو، سخی کی سخاوت کا مظاہرہ کرنے والوں کے مظاہروں کے سامنے اپنی انا کی آواز کو کہیں دبا دیتے ہیں۔ شال اور پھولوں کا ہار لے کر لوٹ جاتے ہیں۔اِدھر سخی کی دریا دلی و فراست کا احساس دلاکرمتشاعروں کو سستی شہرت دلاکر سلطنت اردو کا بے تاج بادشاہ بنادیتے ہیں۔کنوینر وناظم اجلاس ہر دوکام بڑی خوش اسلوبی سے انجام دے دیں گے خود ان کی بھی مدح سرائی ہوگی کہ کیا خوب محفل آراستہ ہوئی کہ دو گھنٹے گلپوشیوں و شال پوشیوں میں گذر گئے۔ اخبارات و سوشیل میڈیا پر پَل پَل کی تصاویر، ویڈیوز نظر نواز ہوتی رہتی ہیں۔ تعریفیں سنتے سنتے کسی کا سیروں خون بڑھ جاتا ہے تو کبھی اپنی گاڑی کا پٹرول جلاکر آنے والے باذوق سامعین کا خون بھی نہ صرف کھولتا ہوگا بلکہ جلتا بھی ہوگا۔ کنوینر اگر ایماندار، شخص ہو تو رقم کا دیانتداری سے استعمال کرے گا، اور مشاعرہ، سمینار، و ادبی محفلوں کی کامیابی پر نازاں و فرحاں ہوگا۔ اپنی کارکردگی پر اسے بھرپور طمانیت کا احساس ہوگا۔ ضرورت مند ہوگا تو اپنے گھریلو اخراجات کی پابجائی کرے گا اور اگر بندر بانٹ کرنے والا ہوگا تو اپنے ان دوچار شرکاء و دوستوں کو بھی ان کا حصہ دے گا جنہوں نے اس لوٹ میں ان کا ساتھ دیا ہے۔

شہر حیدرآباد میں یہ اُردو کی ترقی و تریج کا راگ الاپنے والے اپنی تنظیموں کے مختلف نام رجسٹرڈ کرواکر اُردو کی کونسی خدمت انجام دے رہے ہیں؟ کیا کسی اُردو اخبار، رسالہ نے ان تمام تنظیموں کی فہرست تیار کی ہے۔ کیا پچھلے دس بیس سال میں اُردو اکیڈیمی کے عہدیداروں نے ان تنظیموں کے سربراہوں کو اپنے جملہ ریکارڈس و کارکردگی کے ساتھ اپنے اجلاس پر طلب کیا ہے، کیا تمام تنظیمیں مل کر کبھی کسی ایک مقام یا ہال میں معہ اراکین جمع ہوکر اُردو کے جائز حق کی کوئی کوشش کی ہے؟ اُردو اخبار، رسالے، سہ ماہی، ماہانہ، ہفتہ واری نے ادباء و شعراء ، دانشوران اُردو کے مطبوعات یا قابلیت اور تجربے کے لحاظ سے زمرہ بندی کی ہے، کیا ایسا کوئی ریکارڈ اُردو اکیڈیمی کے دفتر میں موجود ہے ؟؟ ساری تنظیمیں گروپ بندی و انتشار کا شکار ہیں اور اُردو مائل بہ زوال ہے، اُردو کی ادبی محفلوں میں بھی خود نمائی، خود پرستی، خود ستائی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ پہلی صف میں جلوہ نشین ہونے کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے۔ شہ نشین پر موجود مہمان خصوصی اگر حکومت کے نمک خوار ہیں تو وہ آپ کو حکومت کی اگلی پچھلی تمام کارکردگیوں سے خواہ وہ کامیاب رہی ہوں یا ناکام آپ کو اعادہ کرواتے رہتے ہیں، نہ صرف مطمئن بلکہ یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ جو بھی اُردو کے لئے ہوا، اور ہورہا ہے اس میں اُردو بیچاری یتیم و یسیر نہیں ہے بلکہ اس کے سر پر دستِ شفقت رکھنے کیلئے وزیر اعلیٰ موجود ہیں۔ دوسرے وزراء و عہدیدار اعلیٰ بھی ہیں جو اُردو کے شجر کو پھلنے پھولنے میں پوری مدد کررہے ہیں جبکہ ہم ناقص العقل لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ شجر کو سوکھنے سے بچانے کیلئے شاخوں کی آبیاری کررہے ہیں اور اندرونی طور پر جڑیں کاٹنے والے اپنا کام کررہے ہیں۔ اُردو کو بچانا کسی کو مقصود نہیں سب اپنے آپ، اپنے عہدے، اپنی کرسی کو بچانے کیلئے اپنے مفاد کو مدنظر رکھ کر کام کررہے ہیں۔ سینکڑوں میں ایک آدھ شخص ہی شاذونادر ہی ملے گا جو دل سے اُردو کو پروان چڑھانے کی کسک رکھتا ہوگا اور شاید یہ تمنا ان ضعیف افراد کے دل میں زیادہ ہو جن کی عمریں اب 65 سال سے اوپر ہوگئی ہیں، جنہوں نے اُردو میڈیم، اُردو ماحول میں آنکھیں کھولیں ایسے افراد ادبی محفلوں میں نظر آتے بھی ہیں تو ذہنی آسودگی کیلئے آجاتے ہیں ورنہ نوجوان نسل کو ان محفلوں میں دیکھنے کیلئے ہماری نظریں ترستی رہتی ہیں۔

ادباء، شعراء و دانشورانِ قوم کی تہنیت و حوصلہ افزائی ضرور ہونی چاہیئے لیکن کیا کسی کو اعزاز سے نوازنے کیلئے کوئی ادارہ، کوئی قابل معتبر افراد کی کمیٹی ہے جن کے پاس مختلف زمروں سے تعلق رکھنے والوں کی تفصیل ہو، ان کے ادنیٰ کارنامے ان کے شہ پارے ہوں تاکہ کسی اقرباء پروری کی بناء حقدار کو اس کا حق ملے۔ خواہ وہ کیسۂ زر ہو یا صرف گلاب کا ایک پھول۔ جو اس کی اُردو ادب میں پُرخلوص خدمات کا غماز ہو۔ جو اس کو طمانیت و سرخروئی کا احساس دے، اس کے لطیف جذبات کی تسکین کا باعث ہو کہ ان کو چُننے والے فلاں فلاں قابل قدر افراد ہیں‘ ورنہ آجکل ہونے والے تہنیت کے تماشے بازیچۂ اطفال کے سوا ، اور کچھ بھی نہیں ۔ اب ادبی اجلاس میں بھی باذوق سامعین کا فقدان ہوگیا ہے ۔ اُردو کے کلچرل پروگرام میں آرکسٹرا کے ساتھ فلمی گانوں کے ساتھ تھرکنے و مضحکہ خیز حرکتوں کے ساتھ لطیفے پیش کرنے والی محفلوں کے شرکاء تہذیبی و ادبی پروگراموں کے سامعین سے قطعی الگ ہوتے ہیں ۔
ہم دل سے چاہتے ہیں کہ ہر اُردو تنظیم و اُردو اخبار و رسالوں کے پاس ایک ایسی لسٹ یا فہرست ضرور ہو جس میں صدور، ارکان کے نام ، پتہ ، مصروفیات، ان کی تصنیفات، شہ پارے، ایوارڈس وغیر ہ وغیرہ کی تفصیل ہو۔ اور دو تین مہینے میں ایک بار سب کسی ہال یا مقام پر جمع ہوں، اور تبادلہ خیال کریں۔ اُردو اکیڈیمی کے عہدیداروں کو اپنی کوششوں وکاوشوں سے واقف کروائیں۔ شعراء و ادباء کی فہرست بھی دیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ کون کتنے سال سے اُردو کے کس میدان میں اپنی قابلیت اور اُردو کی محبت کے جھنڈے گاڑھ رہا ہے، اس سے اُردو اکیڈیمی کے عہدیداران کو بھی اپنے فرائض انجام دینے میں سہولت ہوگی۔ ان پر تنظیموں کا دباؤ بنائے رکھنے اور اُردو کی ترقی و ترویج کو صحیح سمت دینے کا بہترین کام انجام دینے میں کامیابی ہوگی۔مطالبات سامنے رکھ کر کام کرنے میں انشاء اللہ کامیابی نصیب ہوگی۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا خاتمہ ہوگا۔ اُردو نثر نگاروں میں مذہبی ، تہذیبی، تاریخی، سماجی مسائل پر لکھنے والوں میں بھی تبرہ نگار، تنقید نگار، ناول نگار، ڈرامہ نگار کی زمرہ بندی بھی ہونی چاہیئے۔ اسی طرح شعراء کی بھی درجہ بندی ہو۔ مقررین کا اندراج ہو تاکہ کس محفل، کس سمینار میں وہ محفل کی کامیابی کے ضامن قرار دیئے جائیں۔ غلط انتخاب اور آپسی رنجشوں نے اُردو کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور پہنچا رہا ہے، اس کا تدارک لازم ہے:
اپنی تباہیوں میں ہی جب اپنا ہاتھ ہو
پھر دُشمنوں کے واسطے کیا بددُعا کریں