اطالبان کے درمیان دشمنی ہنوز برقرار ، مذاکرات جاری

   

امریکہ میں خصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد اور طالبان کے ترجمان مجاہد کے بیانات
سلام آباد /10 فروری ( سیاست ڈاٹ کام ) افغانستان کے طالبان نے کہا کہ جاریہ مذاکرات کے باوجود جس میں امریکہ اور دیگر علاقائی طاقتیں شامل ہیں ، ہنوز کسی معاہدہ کو قطعیت نہیں دی گئی ہے ۔ جس سے فوری طور پر امریکہ اور اس کے حلیفوں کے ساتھ افغانستان کے طالبات کی دشمنی کا خاطمہ ہوسکے ۔ ایک اخباری اطلاع کے بموجب طالبات کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم جنگ کرنے پر مجبور کردئے گئے ہیں ۔ کیونکہ ہمارے دشمن ہم پر حملہ کر رہے ہیں ۔ چنانچہ ہم ان کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہیں ۔ طالبان نے تقریباً نصف افغانستان پر قبضہ کرلیا ہے اور 2001 کے بعد جبکہ امریکہ کی زیر قیادت افغانستان پر حملہ کیا گیا تھا ۔ زیادہ طاقتور بن کر اُبھرے ہیں ۔ مذاکرات کے آغاز کو آج 6 دن ہوچکے ہیں ۔ گذشتہ ماہ دوحہ میں طالبان کی نمائندگی کے ساتھ امریکہ کے خصوصی نمائندہ برائے بازآبادکاری افغانستان زلمے خلیل زاد کی موجودگی میں مذاکرات کا آغاز ہوا تھا ۔ جس میں امن کیلئے کوئی نمایاں پیشرفت نہیں دیکھی گئی ۔ خلیل زاد نے کہا کہ معاہدہ کے اعلان سے قبل اس کے مسودہ کا ایک خاکہ تیار کرنا ہوگا جو طالبان کیلئے اطمینان بخش ہو ۔ اس کیلئے ہم جو کچھ بھی ضرورت ہو کریں گے اور افغانستان کو بین الاقوامی دہشتگرد گروپس یا افراد کا پلیٹ فارم بننے نہیں دیں گے ۔ خلیل زاد کا تقرر گذشتہ ستمبر میں ہوا تھا ۔ اس کے بعد انہوں نے امریکہ کی طویل ترین جنگ کے اختتام کیلئے جس میں تقریباً 2400 افراد کی جانیں ضائع ہوچکی ہے اور جنگ گذشتہ 17 سال سے زائد عرصہ سے جاری ہے ، امن کی سمت کوئی نمایاں پیش رفت مذاکرات کے دوران نہیں دیکھی گئی ۔ طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ماسکو میں جو بات چیت ہوئی اس میں کوئی ٹھوس کارنامہ انجام نہیں دیا جاسکا تاکہ جنگ اور فوج کے دباؤ کا خاتمہ کیا جاسکے ۔ انہوں نے پُرزور انداز میں کہا کہ طالبان امریکہ سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مذاکرات کی مدت کے بارے میں کہا کہ عسکریت پسندوں کے کمانڈر اس سے پہلے بھی واضح کرچکے ہیں کہ طالبان میں امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعہ تنازعہ کی یکسوئی چاہتے ہیں ۔ واشنگٹن کسی بھی وقت سودے بازی کیلئے تیار نہیں ہوا ۔ چنانچہ طالبان جنگ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔