اعلی طبقات کیلئے 10 فیصد تحفظات، مسلمان پھر نظرانداز

,

   

لوک سبھا الیکشن کے پیش نظر مودی حکومت کا متنازعہ فیصلہ، دستور میں ترمیم کی تیاری ،تلنگانہ کے مسلم تحفظات کی منظوری سے انکار کیوں؟

حیدرآباد۔ 7 جنوری (سیاست نیوز) لوک سبھا انتخابات میں شکست کے خوف نے نریندر مودی حکومت کو اعلی طبقات کو تحفظات فراہم کرتے ہوئے تائید حاصل کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ تلنگانہ میں مسلمانوں اور درج فہرست قبائل کو تحفظات میں اضافے کی منظوری دینے سے انکار کرنے والی مرکزی حکومت کو آخرکار تحفظات کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنے کے لیے آمادہ ہونا پڑا ہے۔ نریندر مودی حکومت نے عام زمرے میں معاشی طور پر پسماندہ طبقات کو 10 فیصد تحفظات، روزگار اور ملازمتوں میں فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ مرکزی کابینہ نے آج اس فیصلے کو منظوری دی۔ مرکزی حکومت اس فیصلے پر عمل آوری کے لیے دستور کی دفعات 15 اور 16 میں ترمیم کرے گی اور پارلیمنٹ میں ترمیمی بل پیش کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے مجموعی تحفظات کی حد 50 فیصد مقرر کیئے جانے کا بہانہ بناکر نریندر مودی حکومت نے تلنگانہ کے اضافی تحفظات کو مسترد کردیا لیکن اب انتخابی کامیابی کے لیے وہ دستور میں ترمیم کے لیے تیار ہوچکی ہے۔ تین ریاستوں راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں اقتدار سے محرومی کے بعد بی جے پی کو قومی سطح پر شکست کا خوف ستارہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ تینوں ریاستوں میں اعلی طبقات نے بی جے پی کی مخالفت کی جس کے باعث اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں اعلی طبقات تحفظات کی مانگ کررہے ہیں۔ بی جے پی نے 50 فیصد تحفظات کی حد کو بنیاد بناکر کسی بھی ریاست میں تحفظات کا فیصلہ نہیں کیا تھا جس کا خمیازہ اسمبلی انتخابات میں بھگتنا پڑا۔ مرکزی حکومت نے عام زمرے میں معاشی پسماندہ افراد کے لیے 10 فیصد تحفظات کا جو فیصلہ کیا ہے وہ صرف اور صرف اعلی طبقات کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ روزگار اور تعلیم میں پسماندگی کا جہاں تک سوال ہے مسلمانوں کی صورتحال دلتوں سے بھی ابتر ہے لیکن نریندر مودی حکومت کو مسلمانوں اور دلتوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ برخلاف اس کے وہ اعلی طبقات کو خوش کرنے پر توجہ مرکوز کرچکے ہیں۔ بی جے پی میں اعلی طبقات کا غلبہ ہے اور گزشتہ چار برسوں سے اعلی طبقات اپنے معاشی طور پر پسماندہ خاندانوں کے لیے تحفظات کی مانگ کررہے ہیں۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی حکومت نے تحفظات میں اضافے کا فیصلہ کیا اس کے علاوہ گجرات اور ہریانہ میں بھی اعلی طبقات کی جانب سے تحفظات کی مانگ شدت اختیار کررہی ہے۔ ایسے میں نریندر مودی حکومت نے لوک سبھا انتخابات میں اعلی طبقات کی تائید حاصل کرنے نئی چال چلی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحفظات کی فراہمی کے سلسلہ میں دستور میں کہیں بھی معاشی پسماندگی کو بنیاد نہیں بنایاگیا۔ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے سلسلہ میں فیصلے موجود ہیں جن میں معاشی طور پر پسماندگی کی بنیاد پر تحفظات کی مخالفت کی گئی۔ متحدہ آندھراپردیش میں جب مسلمانوں کو معاشی پسماندگی کی بنیاد پر تحفظات فراہم کیئے گئے تو عدالت نے یہ کہتے ہوئے کالعدم کردیا تھا کہ معاشی پسماندگی کافی نہیں ہے جس کے بعد حکومت نے بی سی کمیشن کے ذریعہ سروے اور پھر رپورٹ حاصل کی اور مسلمانوں کو بی سی (ای) زمرے کے تحت شامل کرتے ہوئے تحفظات فراہم کیے۔ بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی اعلی طبقات کو خوش کرنے سے متعلق 10 فیصد تحفظات کو یقینی بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں بل پیش کرے گی۔ کل 8 جنوری پارلیمنٹ کا آخری دن ہے لہٰذا دستور میں ترمیمی بل پر مباحث ممکن دکھائی نہیں دیتے۔ ویسے بھی دستوری ترمیم کے لیے دوتہائی اکثریت ضروری ہے۔ کانگریس اور اس کی حلیف جماعتوں نے حکومت کے اس فیصلے کو سیاسی مقصد براری سے تعبیر کیا ہے۔ ایسے میں بی جے پی کے پاس دستور میں ترمیم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو حکومت کے پاس آرڈیننس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہے گا۔ ہوسکتا ہے بی جے پی حکومت آرڈیننس جاری کرتے ہوئے اعلی طبقات کو خوش کرنے کی کوشش کرے گی۔ عام زمرے میں ایسے خاندان جن کی آمدنی سالانہ 8 لاکھ روپئے سے کم ہو اور جن کے پاس 5 ایکڑ سے کم اراضی ہو، وہ تحفظات کے اہل ہوں گے۔ رہائشی مکان ایک ہزار مربع فیٹ سے کم اور رہائشی پلاٹ 100 گز سے کم ہونا چاہئے۔ جبکہ نان نوٹیفائڈ میونسپل علاقوں میں 200 گز سے کم کا پلاٹ رکھنا تحفظات کے لیے اہلیت کی ضمانت رہے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عام زمرے میں معاشی پسماندگی کی بنیاد پر دیئے جانے والے 10 فیصد تحفظات میں کہیں بھی مسلمانوں کا تذکرہ نہیں۔ لوک سبھا انتخابات کے لیے ضابطہ اخلاق کے نفاذ سے تین ماہ قبل مرکزی کابینہ کا یہ فیصلہ بی جے پی کی نیت کو ظاہر کرتا ہے۔ بی جے پی کے سابق سینئر قائد نے اس فیصلے پر دلچسپ ریمارک کیا اور کہا کہ مودی حکومت کے دیگر وعدوں کی طرح یہ بھی محض ایک انتخابی ’ جملہ ‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت میں ٹک نہیں پائے گا۔