افراط زر کی شرح ‘ حکومت بے پرواہ

   

کیا اُمید رُوداری کیجئے زمانے سے
کون باز آتا ہے ، آئینہ دکھانے سے
ملک میں افراط زر کی شرح مسلسل تشویشناک برقرار ہے ۔ حالانکہ مسلسل دوسرے مہینے اس میں کمی آئی ہے لیکن یہ اب بھی ریزرو بینک کی مقررہ شرح سے زیادہ ہی ہے ۔ افراط زر کی شرح میں اضافہ ملک میں مہنگائی اور عوام پر بوجھ کو ظاہر کرتی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ریٹیل اشیا کی قیمتوں میں کس قدر اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ عوام پر جو بوجھ عائد ہو رہا ہے اس کے نتیجہ میں عوام کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اشیائے خور دو نوش کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہونچ سے باہرہوتی جا رہی ہیں ۔ دال چاول سے لے کر ‘ ترکاری اور خور دنی تیل تک اور دودھ کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور حکومت ان پر قابو پانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے ۔ در اصل اس جانب حکومت کی کوئی توجہ ہی نہیںہے ۔ حکومت کی اپنی جو ترجیحات ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کو عوام پر عائد ہونے والے بوجھ کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور اس کی اپنی ترجیحات یکسر مختلف ہیں ۔ حکومت سیاسی حساب کتاب میں مصروف ہے ۔ اس کی ترجیحات میں صرف سیاسی فائدہ ہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نہ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے کوئی اقدامات کئے جا رہے ہیں اور نہ ہی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کیلئے کسی حکمت عملی کا تعین کیا جا رہا ہے ۔ معیشت تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے چند ایک افراد کے ہاتھ میں سونپ دی ہے اور وہ من چاہے اقدامات کرتے ہوئے اس بات سے بالکل ہی بے فکر ہوگئے ہیں کہ اس کے اثرات کیا مرتب ہونگے یا عوام کس طرح سے ان حالات کا سامنا کر پائیں گے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں مہنگائی سب سے زیادہ ہوگئی ہے تو ساتھ ہی بیروزگاری کی شرح بھی کئی دہوں میں سب سے زیادہ ہوگئی ہے ۔ روپئے کی قدر الگ سے گرتی جا رہی ہے ۔ صنعتی پیدا وار پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ عوام کی نوکریاں اور ان کے روزگار متاثر ہو رہے ہیں۔ نئے روزگار حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے اور چھوٹے موٹے کاروبار بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ان سارے حالات کی وجہ سے افراط زر کی شرح میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی ہے ۔
جہاں تک مرکزی حکومت کا سوال ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ صرف سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے ۔ حکومت معیشت کے انحطاط اور افراط زر کی شرح میں اضافہ سے ہونے والے اثرات پر توجہ دینے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ وہ مصروف ہے تو مہاراشٹرا میں ایک حکومت کو زوال کا شکار کرتے ہوئے خود اقتدار میں حصہ داری حاصل کرسکے ۔ حکومت کو اگر دلچسپی ہے تو تلنگانہ میں سیاسی بھونچال لانے کی ہے ۔ تلنگانہ میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے مسلسل اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کو اگر دلچسپی ہے تو جھارکھنڈ کے حالات کو کنٹرول کرنے سے ہے ۔ حکومت کو اگر دلچسپی ہے تو اس بات سے کہ حقائق کو منظر عام پر لانے والے صحافیوں کو مقدمات میں پھانس کر جیل بھیج دیا جائے ۔حکومت کو اگر دلچسپی ہے تو اس بات سے کہ حاشیہ بردار صنعتکاروں کو راحت مل سکے ۔ صنعتکاروں کی جانب سے حاصل کردہ قرض کے ڈوبنے پر حکومت کو کوئی فکر لاحق نہیںہے ۔ بینک گھوٹالے روکنے اور عوامی مال و دولت کا تحفظ کرنے میں حکومت کو دلچسپی نہیں ہے ۔ حکومت کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں رہ گیا ہے کہ غریب عوام کے پیٹ میں دو وقت روٹی جا رہی ہے یا نہیں۔ حکومت اس بات پر غور کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کہ گیس اورفیول کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے افراط زر کی شرح کس طرح سے بڑھ رہی ہے ۔ اس کے اثرات کیا ہونگے اس پر بھی توجہ نہیں ہے ۔ حکومت صرف اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے ۔
افراط زر کی شرح ریٹیل تجارت اور ریٹیل قیمتوں کی عکاس ہوتی ہے ۔ مسلسل سات فیصد کے اوپر یہ شرح درج ہو رہی ہے جس سے مہنگائی کے تعلق سے اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں رہ گیا ہے ۔ عوام کی مشکلات کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی بھی حکومت کو اپنے سیاسی فائدہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی بنانے سے گریز کرنا چاہئے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سنجیدگی سے افراط زر پر قابو پانے کے اقدامات کرے ۔ اس تعلق سے جامع منصوبہ بندی کرتے ہوئے معاشی پالیسی میں سدھار پیدا کیا جائے ۔ عوام کو راحت پہونچانے اور مہنگائی کو کم سے کم کرنے کے تعلق سے موثر اقدامات کئے جائیں ۔