افسوس ‘نفرت اسکولس تک پہونچ گئی

   

سوچتا ہوں کہ بگڑ جاتے ہیں چہرے کیسے
وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں لہجے کیسے
ویسے تو ہندوستان میں وقفہ وقفہ سے فرقہ وارانہ نوعیت کے انتہائی سنگین واقعات پیش آنا معمول بنتا جا رہا ہے ۔ کئی گوشوں سے ملک کے فرقہ وارانہ ماحول کو متاثر کرنے کی کوششیں پوری تندہی اور منظم انداز سے کی جا رہی ہے ۔ اس ملک میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے اور انہیںذہنی و سماجی اذیت کا شکار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی جا رہی ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت بھی اس معاملے میںکوئی کارروائی کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کرتے ہوئے ایسے زہریلے ‘ جنونی اور منفی سوچ رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ ملک کے اصل میڈیا کی جانب سے عوام کے ذہنوں میں مسلسل زہر انڈیلتے ہوئے ان کو پراگندہ کرنے کا سلسلہ چند برسوں سے پوری شدت سے جاری ہے ۔ ہر مسئلہ کو مذہبی تعصب کے مطابق پیش کرنے کا رجحان عام ہوگیا ہے ۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ برآمد ہونے لگا ہے کہ سماج کے ہر شعبہ میںمذہبی منافرت عام ہونے لگی ہے ۔ جہاں غیر سرکاری اداروں اور دائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے مذہبی منافرت پھیلانے اورا سے ہوا دینے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں وہیں حکومت کی جانب سے نصاب میں بھی تبدیلیاں کرتے ہوئے ہی کام شروع کردیا گیا ہے ۔ ملک کے کالج اوریونیورسٹیز کے ماحول کو پراگندہ کردیا گیا ہے ۔ وہاں تعلیم کم اور مذہبی سیاست زیادہ ہونے لگی ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ میڈیا چینلس اور دوسروں گوشوں کی جانب سے کی جانے والی مسلسل زہر افشانی کے نتیجہ میں نفرت کا ماحول اب اسکولس تک پہونچ گیا ہے اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ نفرت اسکولی طلبا میں نہیں بلکہ ٹیچرس اور اسکول پرنسپلس کے ذہن بھی اب زہر آلود ہوچکے ہیں۔ اترپردیش کے مظفر نگر کے ایک خانگی اسکول میں پیش آیا واقعہ اس کی مثال ہے ۔ اس کو ایک اتفاقی طور پر پیش آنے والا واقعہ نہیںکہا جاسکتا بلکہ یہ ملک میں پنپتی ہوئی زہر آلود فضاء کا پیش خیمہ ہے ۔ اس سے ٹیچرس کے ذہنوں کی پراگندگی کا پتہ چلتا ہے اور یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔ ایک ٹیچر نے جو پرنسپل بھی ہے ایک مسلم طالب علم کواس کے ساتھی غیر مسلم طلباء سے مسلسل تھپڑ رسید کروائے ۔ اسے ذلیل و رسواء کیا اور اس کی ہتک کرتے ہوئے غیر انسانی کام کیا ہے ۔
تعلیم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس سے انسانیت کو فروغ ملتا ہے ۔ ذہن کے دریچے کھلتے ہیں۔ اس سے شعور بیدار ہوتا ہے لیکن اترپردیش میں مظفر نگر کے اسکول کی ٹیچر و پرنسپل نے انتہائی جہالت اور غیر انسانی ذہنیت کا ثبوت پیش کیا ہے ۔ اب وہ ٹیچر اس کا جواز پیش کرنے کی اور اپنا موقف واضح کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو بالکل بھی قابل قبول نہیں ہے ۔ یہ انتہائی مذموم ‘ بہیمانہ اور غیر انسانی اور شرمناک واقعہ ہے ۔ شرمناک اس لئے کہ ایک اسکول میں پیش آیا ہے اور اس کی ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ بچوں کی ٹیچر ہی ہے جو اسکول کی پرنسپل بھی ہے ۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کا زہر کس حد تک سرائیت کرگیا ہے ۔ سماج کا ہر شعبہ اس سے متاثر ہونے لگا ہے اور معصوم اسکولی بچوں میں تفرقہ پیدا کیا جا رہا ہے ۔ ان کے ذہنوں کو ابھی سے مسلم دشمنی سے روشناس کروایا جا رہا ہے ۔ ٹیچر کے خلاف کارروائی کے مطالبات بھی شروع ہوگئے ہیں اور انتظامیہ ایسا لگتا ہے کہ ٹیچر کو بچانے کی بالواسطہ کوششیں کر رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس بد طینت پرنسپل کے خلاف کارروائی کرنے اور اسے گرفتار کرنے کی بجائے اس کو وضاحت کا موقع دیا جا رہا ہے ۔ یہ در اصل فرقہ وارانہ جنون کی انتہاء ہے ۔ اس کے ذریعہ بیمار ذہن والے جنون پسندوں کے جذبات کی تسکین ہوتی ہے جس میں کمسن مسلم طالب علم کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اسے نہ صرف تھپڑ رسید کروائے گئے بلکہ اسے گھنٹوں کھڑا کرتے ہوئے اس کی تضحیک اور تذلیل کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔
ویسے بھی اترپردیش میں آدتیہ ناتھ حکومت اپنے مخالف مسلم اقدامات کیلئے سارے ملک میں شہرت رکھتی ہے ۔ خود چیف منسٹر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے سے گریز نہیں کرتے ۔ اپنی اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانا ان کا وطیرہ رہا ہے ۔ شائد اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک اسکول پرنسپل کا ذہن بھی انتہائی پراگندہ ہوگیا ہے ۔ ان کی منفی اور گھٹیا سوچ نے سارے ملک میں طلبا برادری کیلئے تشویش پیدا کردی ہے ۔ ہم ملک کا مستقبل سنوارنے کے ذمہ دار اسکولی طلبا کے ذہنوں میں ابھی سے زہر بھر رہے ہیں۔ یہ جنونی حرکت کسی ایک مسلم لڑکے کے خلاف نہیں بلکہ ملک کے مفادات کے مغائر ہے ۔ خاطی اور جنونی سوچ کی حامل پرنسپل کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہئے اور اسے بخشا نہیں جانا چاہئے ۔
نوح میں ماحول بگاڑنے کی ضد
ہریانہ کے نوح اور میوات میں گذشتہ دنوں پیش آئے فرقہ وارانہ نوعیت کے واقعات نے سارے ملک میں تشویش کی لہر پیدا کردی تھی ۔ اس میں انسانی جانوں کا اتلاف بھی ہوا اور جائیدادو املاک کو بھی پھونک دیا گیا تھا ۔ بہت بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ وہاں فرقہ پرست عناصر کو ملنے والی کھلی چھوٹ ہی کا نتیجہ تھا کہ فسادات برپا کروائے گئے اور پھر خاطیوں کے خلاف کارروائی کی بجائے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا عمل شروع ہوا تھا ۔ جو عناصر ماحول خراب کرنے اور بگاڑنے پر بضد ہیںان کے خلاف کارروائی کے معاملہ میںہریانہ کی بی جے پی حکومت اور وہاں کا انتظامیہ بالکل ہی ناکام نظر آنے لگا ہے ۔ حالات کو کسی طرح سے بہتر بنانے اور کشیدگی کو کم کرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرست عناصر ایک بار پھر وہاں کے حالات بگاڑنے پر بضد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوح میںجل ابھیشیک یاترا کے اہتمام کا اعلان کیا گیا ہے حالانکہ وہاں پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے اس یاترا کی اجازت نہیں دی گئی ہے ۔ گذشتہ دنوں وہاں مختلف مہا پنچایتوں کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ ان کیلئے بھی پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔ اس کے باوجود مہا پنچایتیں منعقد کی گئیں اور سپریم کورٹ کی ہدایات کا احترام کئے بغیر اشتعال انگیزیاں کی گئی ہیں۔ اب جل ابھیشیک یاترا کے ذریعہ ایک بار پھر یہی کوشش ہونے لگی ہے ۔ انتظامیہ اور پولیس کی ذمہ داری اور فریضہ ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کے عزائم کوناکام بنائیں۔