اقوام متحدہ ہائی کمشنر

   

مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے عالمی سطح پر ہندوستان کے وقار کو ٹھیس پہونچایا ہے ۔ سفارتی امور میں اس کی بچکانہ باتیں اور اندرون ملک کالے قوانین لانے کے فیصلے آج ساری دنیا میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ۔ یہ حکومت اپنے فیصلوں کو درست ٹہراتی ہے جب کہ ہندوستانی عوام اور بیرون ملک سربراہان مملکت سے لے کر عام شہریوں نے سی اے اے ، این آر سی کے خلاف اپنی رائے ظاہر کی ہے ۔ مودی حکومت ہر رائے اور تنقید کو ہٹ دھرمی کے ساتھ مسترد کررہی ہے ۔ ایران نے سی اے اے اور دہلی فسادات پر تنقید کی تو وزارت داخلہ نے ایران کے سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا ۔ اس سے قبل ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتر محمد نے سی اے اے پر تنقید کی تو ملائیشیا کے ساتھ پام آئیل معاہدہ ختم کردیا گیا ۔ یوروپی یونین نے سی اے اے کے خلاف قرار داد لانے کا اعلان کیا لیکن مودی حکومت نے اپنے بعض دوست بیرونی ملکوں کو لے کر وضاحت کی تو یوروپی یونین کو سی اے اے کے خلاف قرار داد لانے کے فیصلہ کو موخر کرنا پڑا ۔ اسی طرح اب سی اے اے کے خلاف ہندوستان میں جاری احتجاج اور اس قانون نے انسانی حقوق کی پامالی کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر نے سی اے اے کے خلاف ہندوستانی عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ سے رجوع ہو کر درخواست کی کہ اس کی مداخلت کو قبول کیا جائے ۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر مشیل بیچلیٹ نے جنیوا میں ہندوستان کے مستقل مندوب کو بھی اس کی اطلاع دی ہے ۔ درخواست میں سپریم کورٹ سے کہا گیا ہے کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین ، عالمی اقدار اور انصاف کے معیار کے مطابق سی اے اے پر نظر ثانی کرے ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیوگوٹیرس نے بھی گذشتہ دنوں سی اے اے اور این آر سی کو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے خطرناک قرار دیا تھا کیوں کہ اس قانون کے بعد ہندوستانی مسلمان بے وطن ہوجائیں گے ۔ عالمی سطح پر جب مودی حکومت کو اس قدر تنقیدوں کا سامنا ہے تو وہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرسکتی ہے ۔ مگر یہاں حکومت کا رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے منصوبہ کو بہر صورت روبہ عمل لانے کا تہیہ کرلیا ہے ۔ ہندوستانی اقلیتوں کو ان کے ہی ملک میں بے وطن کردیا جائے تو پھر حالات کی ابتری کیا ہوگی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ دہلی اور ملک کے دیگر حصوں میں سی اے اے کے خلاف احتجاج ہورہے ہیں ۔ اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کا سپریم کورٹ سے رجوع ہونا ایک غیر معمولی کارروائی ہے ۔ ہندوستان کی سفارتی تاریخ میں یہ ایک منفرد قدم ہے ۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں درخواست داخل کی ہے ۔ وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے اس اقدام کو ہندوستان کے مقتدر اعلیٰ سے متعلق مسائل پر مداخلت قرار دیا ہے ۔ وزارت خارجہ نے سی اے اے کو دستوری قرار دیا ہے اور یہ قانون تقسیم ہند کے سانحہ سے اٹھنے والے انسانی حقوق کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہی لایا گیا ہے ۔ وزارت خارجہ کا ادعا اور اقوام متحدہ کی مداخلت کے درمیان ایک سفارتی عدم اطمینانی پائی جاتی ہے ۔ جب عالمی ادارے یہ محسوس کررہے ہیں کہ ہندوستان کے اندر سب کچھ ٹھیک نہیں ہورہا ہے تو اس پر غور کرنا موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اب ملک میں ایسے بھی فیصلہ ہونے لگے ہیں جن کے خلاف دوسرے ممالک کے تیسرے فریقین مداخلت کررہے ہیں اور اس معاملہ میں تیسرے فریق بن رہے ہیں ۔ کیوں کہ سی اے اے کی دستوری افادیت کا جائزہ لینے کے لیے سپریم کورٹ میں پہلے ہی 143 درخواستوں کی سماعت ہورہی ہے ، جنوری میں آخری سماعت کے وقت سپریم کورٹ نے اس قانون پر حکم التواء سے انکار کردیا تھا اور مرکز کو جواب داخل کرنے کے لیے چار ہفتوں کی مہلت دی تھی ۔ پانچ ہفتوں کے بعد عدالت عظمیٰ میں اس معاملہ کو لایا جائے گا ۔ اس کے ساتھ اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی درخواست کو بھی زیر سماعت لایا جائے گا یا نہیں یہ تو عدالت عظمیٰ کے فیصلہ پر منحصر ہے ۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کمیشن نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی قرار داد اور 48/141 کے حوالے سے تمام انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اسے حاصل اختیارات کے مطابق درخواست داخل کیا ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ سپریم کورٹ اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے نسلی امتیاز کو روکنے کے لیے عالمی ادارہ کی درخواست پر کیا قدم اٹھائے گا ۔ ہونا تو یہی چاہئے کہ عالمی ادارہ کو بین الاقوامی قوانین کے تحت حاصل ذمہ داریوں کو ملحوظ رکھا جائے ۔