اللہ پر توکل، پریشانیوں سے بچنے کا بہترین علاج

   

مسلمانوں کا ہمیشہ یہ ایمان اور اعتقاد رہا ہے کہ نفع و نقصان اللہ کی طرف سے ہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی ایسی بات ان کو پیش آجاتی، جس سے پریشانی میں مبتلاء ہوسکتے تھے، لیکن وہ فوراً اپنے آپ کو سمجھاتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہوا ہے، اس پر صبر کرنے سے ہمیں اس کی ذات سے انعام ملے گا۔ اسی طرح کامیابی کو بھی اللہ کی طرف سے سمجھتے تھے۔
آدمی کے تفکرات اور پریشانی کا اس وقت آغاز ہوتا ہے، جب اس کا اعتقاد اللہ کی ذات پر نہیں ہوتا۔ زندگی اس کو تنگ لگتی ہے، اس کی مدد اور طاقت کا یقین ان کی زندگی میں سکون دیتا رہتا ہے۔ وہ پریشانیوں کو اللہ کی ذات کے سہارے سے دور کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں میں اللہ کی مدد اور طاقت کا زبردست یقین تھا، ان کو دنیا بھی بہشت معلوم ہوتی تھی۔
آر سی سی بوڈلی کا کہنا ہے کہ جب میں مسلمانوں کے درمیان پہنچا اور اُٹھتے بیٹھتے جب میں نے یہ آواز بار بار سنی کہ ’’ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے‘‘ تو اس کے بعد جب مجھے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تو میں بھی یہ جملہ دہرانے لگا، جس سے مجھے کافی سکون حاصل ہوتا، جب کہ یورپ کی زندگی مجھے سکون فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی تھی۔ واضح رہے کہ مسٹر بوڈلی کو افریقہ کے مسلم قبیلہ کے درمیان رہنے کا موقع ملا تھا۔ مذکورہ بالا تحریر کی روشنی میں یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ پر توکل کرنے سے زندگی کے کتنے مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ جانے کتنی پریشانیوں سے ہم خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
مسٹر بوڈلی کا کہنا ہے کہ میں ایک ایسا انگریز ہوں، جس نے اسکول اور کالج کی زندگی پیرس میں گزاری اور فوجی تعلیم سنڈھیرسٹ سے حاصل کی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران ہندوستان میں فوجی خدمات ادا کیں اور پہاڑی اور نیم پہاڑی روح افزا مناظر اور قابل دید عمارات سے لطف اندوز ہوا۔ میری رسائی سابق وزیر اعظم برطانیہ لائیڈ جارج تک تھی، لیکن جب ذہنی پریشانیوں اور تفکرات نے گھیرا تو مجھے یورپ کی کسی شبینہ کلب، گرجا، پر رونق بازاروں، رقص و موسیقی کی محفلوں اور سیاست دانوں کے ایوانوں میں سکون نہیں ملا۔ اگر مجھے سکون ملا توافریقہ کے صحراؤں کے خانہ بدوش مسلم قبائل کے خیموں میں ملا۔
میری ملاقات جب سابق وزیر اعظم برطانیہ سے ہوئی، اپنی پریشانیاں اور مسائل جب میں نے ان سے بیان کئے تو انھوں نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں سیاست میں حصہ لینا شروع کردوں۔ میرا دماغ اس وقت گرم پانی کی طرح کھول رہا تھا، مگر ان کا مشورہ یہ تھا کہ میں سرخ دہکتے انگاروں میں چھلانگ لگادوں۔ جس سے میں مزید پریشان ہوگیا۔ خوش قسمتی سے میری ملاقات مشہور عرب جاسوس لارنس آف عربیہ سے ہوئی۔ میرے تفکرات معلوم ہونے کے بعد انھوں نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ ’’میں عرب کے کسی خانہ بدوش قبیلہ میں جاکر رہوں‘‘۔