الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ

   

میں اپنی دوستی کو شہر میں رسوا نہیں کرتا
محبت میں بھی کرتا ہوں مگر چرچا نہیں کرتا
الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ
بین مذاہب کی شادیوں پر الہ آباد ہائی کورٹ نے جو اعلان کیا ہے اس کا آیا مودی حکومت یا یوگی حکومت کی سرزنش تو نہیں ہے ؟ عدالت نے اپنے فیصلہ میں واضح کیا کہ اسپیشل میریج ایکٹ کے تحت شادی کا ارادہ کرنے والے بین مذاہب کے جوڑے کی تفصیلات کو نوٹس بورڈ پر چسپاں کرنے کے لزوم کو اختیاری بنایا جائے۔ اگر کوئی جوڑا اپنی تفصیلات ظاہر نہ کرنا چاہتا ہو تو متعلقہ عہدیداروں کا فرض ہے کہ وہ شادی کے لیے پیشگی 30 یوم قبل کے رجسٹریشن کے بعد ان کی تفصیلات ظاہر نہ کریں ۔ اس طرح خفیہ طور پر شادی کرنے کی راہ ہموار ہورہی ہے تو اس سے ہر دو چاہے وہ جوڑا ہندو ، مسلم کا ہو یا کوئی اور مذہب کا ہر ایک کے لیے راحت ملتی ہے ۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے کہا کہ ہر شہری کی راز دارانہ زندگی اور اس کی آزادی کے بنیادی حق میں کسی عہدیدار یا قانون کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ۔ عدالت کا فیصلہ بادی النظر میں لو جہاد کے ذریعہ ہراساں کرنے کا جو ارادہ کیا گیا تھا اب یہ سخت ترین دفعہ ختم ہوجاتی ہے ۔ لوجہاد کے قانون میں بی جے پی حکومت نے ملک میں یکساں سیول کوڈ کے بعض شق شامل کئے تھے ۔ گویا بی جے پی حکومت خفیہ طور پر یکساں سیول کوڈ لانے کی کوشش کررہی تھی لیکن عدالت نے اس کوشش کو عیاں کرتے ہوئے اس پر روک بھی لگادی ۔ الہ آباد ہائی کورٹ بنچ کے جسٹس وویک چودھری نے کہا کہ اگر کوئی جوڑا شادی کرانے والے آفیسر کو مطلوب 30 دن کی نوٹس کی اشاعت کے لیے اجازت نہیں دے گا تو وہ ان کی خواہش کو ملحوظ رکھتے ہوئے بین مذاہب کی شادی کی تفصیلات ظاہر نہ کرے ۔ میریج رجسٹرار کے دفتر میں جب بھی شادی کرنے کے ارادہ کے ساتھ کوئی جوڑا ’ کورٹ میریج ‘ کے لیے رجوع ہوتا تو اس کی شادی کی درخواست کی تفصیلات اور تصاویر کو دفتر کے نوٹس بورڈ پر آویزاں کیا جاتا تھا جس سے بعض اوقات فرقہ وارانہ کشیدگی ہورہی ہے اور ذات پات کا مسئلہ بھڑک اٹھتا ۔ اس طرح کچھ لوگ میریج رجسٹرار کے نوٹس بورڈ پر چسپاں تفصیلات حاصل کر کے شادیوں کو رکوانے یا ناکام بنانے کی کوشش کرتے ۔ شادی کے خواہاں جوڑے کو ہراساں کیا جاتا ، ڈرایا دھمکاتے ہوئے خوف کا ماحول پیدا کردیا جاتا ، بعض اوقات شادی شدہ جوڑے یا شادی کے لیے درخواست دینے والے جوڑے کو پولیس کا تحفظ حاصل کرنے کی ضرورت پڑتی ۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک ہندو شخص کی جانب سے داخل کردہ حبس بیجا کی درخواست کی سماعت کے دوران یہ فیصلہ دیا ہے ۔ ہندو شخص نے کہا کہ اس کی بیوی ایک مسلمان تھی جس نے شادی کے موقع پر ہندو مذہب قبول کرلیا ۔ اب اس کے والد نے حراست میں رکھا ہے جب یہ معاملہ عدالت میں آیا تو اس جوڑے کی شادی مذہبی پرسنل لا کے بجائے اسپیشل میریج ایکٹ کے تحت انجام دی گئی اور 30 دن کی پیشگی نوٹس کی وجہ سے ہی جوڑے پر خاندانی دباؤ بڑھنے لگا ۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے 30 دن کی نوٹس کے دوران جوڑے کی تفصیلات راز میں رکھنے کا حکم دے کر ایک شہری کے حقوق کا تحفظ کیا ہے لیکن یہ فیصلہ اس سماج ، ریاستی عہدیداروں اور غلط طور پر بدنیتی سے تیار کردہ قوانین کے لیے دھکہ ہے ۔ اس لیے اب الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں سپریم کورٹ کو قدم اٹھاتے ہوئے اسپیشل میریج ایکٹ کا جائزہ لینا چاہئے اور جو قوانین سماج کی خدمت کرنے میں ناکام ہوں تو ان پر نظر ثانی کی جانی چاہئے ۔ جب سے بی جے پی نے سیاسی طاقت حاصل کی ہے ۔ سماجی خدمت کی روایات کی دھجیاں اڑا دی ہیں ۔ قوانین کی تیاری اور ان کا اطلاق سماج کی بہتر خدمت کے لیے ہونا چاہئے ناکہ سماج میں انتشار یا فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی جائے۔۔
ہندوستانی معیشت پر آئی ایم ایف کی رائے
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے کوروناوائرس سے نمٹنے اور معیشت کو مستحکم بنانے میں حکومت ہند کے اقدامات کو ’’نہایت ہی فیصلہ کن‘‘ قدم قرار دیا ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے ساری دنیا کی معیشت جھکولے کھارہی ہے۔ ایسے میں عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے معاشی سنگینوں سے بچنے کیلئے کئے گئے اقدامات کی ستائش کی ہے تو اس سال مزید معاشی استحکام کی توقع کی جاسکتی ہے۔ گلوبل میڈیا راونڈ ٹیبل کانفرنس میں حصہ لیتے ہوئے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائرکٹر کرسٹالین جورجیوا نے آنے والے عالمی معاشی اپ ڈیٹ میں ہندوستان کے لئے بہترین تصویر ابھرنے کی توقع ظاہر کی۔ انہوں نے 26 جنوری تک ہندوستان کی معاشی صورتحال میں بہتری کی نشاندہی کی ہے کیونکہ حکومت ہند نے کوروناوائرس کی وبا کے ساتھ معاشی سنگینیوں سے نمٹنے کیلئے بعض ٹھوس قدم اٹھائے ہیں۔ اس کی تفصیلات آئی ایم ایف کی جانب سے ورلڈ اکنامک اپ ڈیٹ کے عنوان سے 26 جنوری کو جاری کی جانے والی ہیں۔ آئی ایم ایف نے اس سے قبل بھی ہندوستاان کی معیشت میں 2020ء سال کے دوران 10.3 فیصد کی ترقی کی پیش قیاسی کی تھی لیکن یہ صرف 8.8 فیصد ہی رہی اور سال 2021ء میں بھی یہی فیصد رہنے کا امکان ہے۔ پالیسی سازوں نے معیشت کو بہتر بنانے کیلئے مؤثر منصوبے تو بنائے ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ کوروناوائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نے معیشت کی کمر توڑ دی ہے۔ آنے والے سال 2022ء کے ماہ مارچ کے ختم تک مالیاتی صورتحال کیا ہوگی یہ ناقابل قیاس ہے۔ توقع تو یہ کی جارہی ہے کہ مالیاتی سال 2023 تا مالیاتی سال 2026 کے دوران پیداوار کی رفتار 6.5 فیصد ہوگی جو توقع سے کم ہے۔