الیکٹورل بانڈز پر امتناع

   

اک نہ اک دن زمانے پہ کھل جائیں گی
اُن کے کردار کی ساری کلکاریاں
سپریم کورٹ نے ایک تاریخی اور اہمیت کا حامل فیصلہ سناتے ہوئے ملک میںالیکٹورل بانڈز اسکیم پر امتناع عائد کردیا ہے ۔ اسے غیر دستوری قرار دیدیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ انتخابی عمل میں کالے دھن کے دخل کو روکنے کے مقصد سے شہریوں کے حق معلومات کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی ۔ الیکٹورل بانڈز اسکیم کا مرکزی حکومت کی جانب سے 2018 میں آغاز کیا گیا تھا ۔ یہ دعوی کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ انتخابی عمل میں کالے دھن کے دخل کو روکنے کی کوشش کی جائے گی ۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ جو کمپنیاں یا افراد یا ادارے سیاسی جماعتوں کو چندہ دینگے ان کی شناخت کو پوشیدہ رکھا جائیگا ۔ عوام کے ذہن میں یہی وہ نکتہ تھا جس کے نتیجہ میں شبہات پیدا ہو رہے تھے کہ اگر کوئی کمپنی یا ادارہ کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں اور ان کی شناخت ظاہر نہیں کی جاتی تو پھر وہ پالیسی سازی کے عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں گی ۔ یہی نکتہ سپریم کورٹ نے بھی اٹھایا ہے اور اس کو بھی بنیاد بناتے ہوئے الیکٹورل بانڈز کی اسکیم کو غیر دستوری اور قرار دیتے ہوئے اس پر امتناع عائد کردیا ہے ۔ صرف یہیں تک بات محدود نہیںر ہی بلکہ حکومت نے بینکوں سے بھی کہا ہے کہ وہ بیک وقت اس طرح کے بانڈز کی اجرائی کا سلسلہ روک دیں اور اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو چاہئے کہ وہ 13 مارچ تک عطیہ دہندگان کی فہرست اور ان کے عطیہ کی تفصیلات وغیرہ الیکشن کمیشن کو فراہم کردے اور الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ یہ ساری تفصیل اپنی ویب سائیٹ پر پیش کردے ۔ اس طرح اب خفیہ چندہ دینے کا سلسلہ رک جائے گا اور سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے والی کمپنیوں اور اداروں کی شناخت وغیرہ سے ملک کے عوام بھی واقف ہوسکیں گے ۔ اس سے حکومت کے فیصلوں کو بھی پرکھا جاسکتا ہے کہ کہیں برسر اقتدار جماعت کو بھاری چندہ دینے والوں کو حکومت اپنی پالیسیوں کے ذریعہ تو فائدہ نہیں پہونچا رہی ہے ۔ یہ شبہات ابتداء سے ظاہر کئے تاہم ان پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی تھی ۔ اب سپریم کورٹ نے اس ساری اسکیم کو ہی غلط قرار دیتے ہوئے امتناع عائد کردیا ہے ۔
ہندوستان میںاکثر و بیشتر یہ شبہات پائے جاتے ہیں کہ جو کمپنیاں اور ادارے جن سیاسی جماعتوں کو چندے دیتی ہیں وہ پھر سرکاری فیصلہ سازی اور کام کاج میں مداخلت کی کوشش کرتی ہیں۔ ان اداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ سرکاری فیصلوں اور پالیسیوں سے انہیںفائدہ مل سکے ۔ مرکزی حکومت نے اس پہلو پر توجہ نہیں دی یا پھر عمدا ایسے اداروں اور کمپنیوں کی شناخت کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی تھی جو برسرا قتدار جماعت کو چندہ دیتے ہوئے اپنے کام نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ الیکٹورل بانڈز کے ذریعہ مکمل چندے اسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی روایت رہی ہے کہ عام آدمی بھی اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں کو فنڈز فراہم کرتا ہے ۔ چندے دیتا ہے اور عطیات کے ذریعہ اپنی پسند کی جماعت کی مدد کی جاتی ہے ۔ تاہم یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ کئی کمپنیاںاور کارپوریٹ ادارے سیاسی جماعتوں کو بھاری فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ بعد میںجن جماعتوں کی حکومتیں قائم ہوجاتی ہیں وہ اپنے طور پر ان کمپنیوں اور اداروں کو مددفراہم کرنے بالواسطہ کوشش کرتے ہیں۔ اس کیلئے پالیسی ساز فیصلے بھی کئے جاتے ہیں ۔ یہ شبہات اور الزامات بالکل ہی بے بنیاد نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے ان الیکٹورل بانڈز کی نوعیت ہمیشہ سے مشکوک رہی تھی ۔ چندہ دینے والی کمپنیوں اورا داروں کی شناخت کو پوشیدہ رکھنا ملک کے عوام کے حق معلومات کی خلاف ورزی بھی تھی جس کو سپریم کورٹ نے اپنی رولنگ میںواضح کردیا ہے ۔
جس طرح سے حکومتیں اور سیاسی جماعتیں عوامی زندگی میںہر کام شفافیت سے کرنے کی وکالت کرتی ہیں اور اپنے تمام معاملات شفاف ہونے کے دعوے کئے جاتے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو فنڈز کی فراہمی بھی انتہائی شفاف انداز میںہونی چاہئے ۔ عطیہ دہندہ کی شناخت پوشیدہ رکھنے سے ہی کئی شبہات جنم لیتے ہیں۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے رولنگ دیدی ہے تو گذشتہ پانچ برسوں میںجتنے بھی عطیات دئے گئے ہیں اور جن کمپنیوں اور اداروں نے یہ عطیات دئے ہیں اب یہ سب منظر عام پر آجائیں گے اور عوام کو اپنے طور پر ان سے واقف ہونے اور پھر رائے قائم کرنے کا واضح موقع دستیاب ہوسکتا ہے ۔