امتحانی پرچوں کا افشاء

   

ملک میں اکثر و بیشتر کسی نہ کسی طرح کے امتحانات کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ کبھی سرکاری بھرتیوں کیلئے تو کبھی سرکاری داخلوںکیلئے تو کبھی کسی اور کام کیلئے ۔ یہ امتحانات جاری رہتے ہیں۔ ریاستی حکومتیں ہوں یا مرکزی حکومت کے ادارے ہوں سبھی اس سلسلہ میں سرگرم رہتے ہیں۔ ریاستوں میں بھرتیوں کیلئے جہاںمقامی اتھاریٹیز با اختیار ہیں وہیں ریاستی پبلک سرویس کمیشن بھی بھرتیوں کے عمل کی ذمہ داری نبھاتا ہے ۔ اسی طرح مرکز میں یونین پبلک سرویس کمیشن کے امتحانات اور تقررات کے سلسلے بھی چلتے رہتے ہیں۔ ساری صورتحال اس طرح کی رہتی ہے کہ ہر وقت کسی نہ کسی امتحان کی تیاری یا انعقاد کا وقت ہوتا ہے ۔ بعض صورتوں میں دیکھا گیا ہے امتحانات کیلئے بدعنوانیاں اور بے قاعدگیاں بھی کی جاتی ہیں۔ کہیںپرچہ جات کا افشاء کردیا جاتا ہے تو کبھی تلبیس شخصی کے ذریعہ کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ محنت کرنے والے طلبا و طالبات کا اپنا جنون ہوتا ہے ۔ وہ اپنی تیاریوں میں کسی کو مخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے اور اپنی محنت کے ذریعہ شاندار نتائج بھی حاصل کرتے ہیں۔ تاہم امتحانی پرچوں کے افشاء کامسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل اور سنگین نوعیت کا ہے ۔ ا س کے ذریعہ نا اہل طلبا کو اعلی نشانات اور اعلی درجات حاصل کرنے میں مدد مل جاتی ہے اور وہ دوسرے حقدار طلبا کا حق مارنے لگتے ہیں۔ یہ طریقہ کار حقیقی اور محنت کرنے والے طلبا کے ساتھ کھلواڑ کرنے اور ان کے مستقبل کو داو پر لگانے کے مترادف ہے ۔ کچھ عناصر ہوتے ہیں جنہوں نے تعلیم کو تجارت کا روپ دیدیا ہے ۔ تعلیم کو ایک مقدس پیشہ قرار دیا گیا تھا لیکن انسان کی ہوس اور حرص نے اس کو بھی تجارت کا رنگ دیدیا ہے ۔ طلبا کو انہوں نے خرید و فروخت والی شئے کے طورپر دیکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تعلیمی اداروں میں برائیاں پائی جانے لگی ہیں اور تعلیم کو عام کرنے کی بجائے اسے فروخت کیا جا رہا ہے ۔ امتحانی پرچوں کے افشاء کا بھی اسی ذہنیت سے تعلق ہے ۔ جو لوگ تعلیم کو تجارت کے طور پر استعمال کرتے ہیں وہی لوگ اس طرح کی غیر اخلاقی اور غیر قانونی حرکتوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
کوئی وقت تھا جب بہار اور دوسری ریاستوںمیںامتحانی پرچوں کے افشاء کو عام بات قرار دیا جاتا تھا تاہم اب تلنگانہ اس معاملے میں منظر عام پر آگیا ہے ۔ پہلے تو یو پی ایس سی امتحانات کے پرچوں کا باضا بطہ افشاء ہوگیا ۔ اس پر سیاسی ہنگامہ آرائی چل رہی ہے ۔ حکومت بھی اس مسئلہ کو سیاسی رنگ دینے میں کامیاب رہی ہے اور اپوزیشن بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ طلبا کے مستقبل سے جو کھلواڑ ہوا ہے اس پر کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے ۔ ہر کوئی قانونی کارروائی کی بات کر رہا ہے لیکن اس طرح کے واقعات کے مستقبل میں روک تھا م اور تدارک کیلئے کسی طرح کی کوئی مثبت تجویز پیش کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے ۔ اسی طرح ایس ایس سی امتحانات کا ریاست بھر میںآغاز ہوا ۔ ابتدائی دو دن کے دونوں ہی پرچوں کو واٹس ایپ پر امتحان شروع ہونے کے چند ہی منٹ بعد وائرل کردیا گیا ۔ پہلے دن کسی ممتحن پر یہ الزام آگیا کہ اس نے اپنے فون سے تصویر لیتے ہوئے اسے وائرل کردیا ۔ دوسرے دن بھی اسی طرح کی کوئی بہانہ بازی کی گئی تاہم ایسا لگتا ہے کہ پرچوں کے افشاء کا مسئلہ اب ایک بڑا طوفان بن سکتا ہے ۔ اس معاملے میں بی جے پی پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ اس نے حکومت کو بدنام کرنے سازش کرتے ہوئے پرچوں کے افشاء کو یقینی بنایا ہے ۔ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ دوسرے دن جس پرچہ کو سوشیل میڈیا پر وائرل کیا گیا اسے بی جے پی کے ریاستی صدر و رکن پارلیمنٹ کریم نگر بنڈی سنجے کو بھی روانہ کیا گیا تھا ۔
ریاست میںکئی مسائل پرسیاسی ماحول گرم ہے ۔ تمام جماعتیں ایک دوسرے پر تنقیدوں میں مصروف ہیں۔ پبلک سرویس کمیشن پرچوں کے افشاء کے بعد ایس ایس سی کے دو دن میں دو مرتبہ پرچوں کو سوشیل میڈیا پر وائرل کردینا طلبا کے ساتھ کھلواڑ ہے ۔سیاسی فائدہ کیلئے اس طرح طلبا کی زندگیوںاور ان کے مستقبل کو داو پر لگادینے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ اس سارے معاملے کی انتہائی موثر اور غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئیں ۔ جو کوئی بھی اس معاملہ میں واقعی ذمہ دار ہوںان کو بخشا نہیں جانا چاہئے اور مستقبل میںاس طرح کے واقعات کے تدارک کیلئے موثر و جامع اقدامات اور منصوبے بنائے جانے چاہئیں۔