امراض ۔اسلامی نقطۂ نظر

   

اللہ سبحانہ نے اس دنیا کو امتحان کی غرض سے بنایا ہے ،یہاں ہمیشہ انسان ایک حال میں نہیں رہتا،ویسے یہ دنیا بھی مجموعہ اضداد ہے، یہاں رات کی تاریکی بھی چھاتی ہے ،دن کا اُجالا بھی آتا ہے ،حیات ِانسانی کے بھی مختلف ادوار ہیں ،اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو بچپن ،جوانی اور بڑھاپے کی منازل سے دوچار رکھا ہے ،انسان ہمیشہ جوان نہیں رہ سکتا،انسان کی جوانی اس کو بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچاتی ہے ،کبھی وہ صحتمند و تندرست رہتا ہے تو کبھی امراض کا شکار ہوجاتا ہے ،کبھی انسان کو فراغت میسر آتی ہے تو کبھی مشغولیتیں اپنے گھیرے میں رکھتی ہیں ، یہی حال مال ودولت کا ہے ،کبھی مال و دولت کی فراوانی رہتی ہے تو کبھی محتاجی و تنگدستی دامن گیر ہوجاتی ہے ، اللہ سبحانہ نے دنیا کا نظام ایسے بنایا ہے کہ یہاں ہر پیدا ہونے والے کو موت کیلئے تیار رہنا ہے ،کیونکہ ہر پیدا ہونے والے کی آخری منزل موت ہے ، اس سے کسی کو مفر نہیں، دنیا میں کئی ایک اختلافات ہیں ، مذہبی و اعتقادی اختلاف ،فکر و نظر کا اختلاف ، سماجی و تہذیبی اختلاف ،زبان اور لب و لہجہ کا اختلاف ، الغرض اختلافات کی ایک طویل فہرست ہے ،لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ،اسی لئے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو پسندیدہ چیزوں کو ناپسندیدہ چیزوں کے لاحق ہونے سے پہلے غنیمت جاننے کی تلقین کی ہے ،اس تفصیل کی وضاحت کے ضمن میں آپ نے صحت کے زمانے کی قدر کرنے کی تلقین کی ہے قبل اس کے کہ بیماری کا زمانہ آپہنچے،(سنن الکبری للنسائی۴۰۰/۱۰)حدیث پاک میں وارد ہے ،دو نعمتیں ایسی ہیں جن سے اکثر انسان دھوکہ میںہیں ،ایک صحت دوسرے فراغت ، (بخاری ۸/۸ ۸ رقم ۶۴۱۲)صحت و تندرستی کے زمانے کی قدر یہ ہے کہ انسان ہرلمحہ اس نعمت کی شکر گزاری میں بسر کرے، اس کا عملی شکرانہ بھی ادا ہو اور لسانی شکرانہ بھی یعنی مقصدزندگی کو یاد رکھنا اس کے مطابق زندگی گزارنا یہ عملی شکرانہ ہے اور لسانی شکرانہ یہ ہے کہ ہمیشہ انسان کی زبان پر’’الحمداللہ الشکرللہ ‘‘کاورد جاری رہے اور دل جذبات تشکر سے معمور رہے ، ظاہری و باطنی جوجو انعامات اللہ سبحانہ نے انسان کو بخشے ہیں روز حشر ان کی باز پرس ہوگی ، ’’ پھر تم سے اس دن تمام نعمتو ں کے بارے میں ضرور پوچھاجائے گا‘‘(التکاثر/۷) ۔ایک حدیث پاک میں وارد ہے کہ کوئی نعمت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں باز پرس نہ ہو لیکن ان میں دو نعمتیں بہت اہم ہیں ایک صحت و تندرستی دوسرے تشنگی کے وقت ٹھنڈا پانی ان کے بارے میں بھی عنداللہ باز پرس ہوگی، (تفسیر الثعلبی ۵۳۲/۶)اسلام کا فلسفۂ حیات آسمانی و روحانی اقدار سے جڑا ہوا ہے ،ایمانی نقطہ نظریہ ہے کہ صحت و تندرستی ہی کی طرح بیماری و مصیبت بھی نعمت ہے، بیماری کا زمانہ اللہ سبحانہ و تعالی ٰسے قرب کاذریعہ بنتاہے، انسان صحت و تندرستی کے زمانے میں اکثر غفلت و کوتاہی کا شکار رہتا ہے لیکن جیسے ہی کوئی مرض لاحق ہوجائے تو پھر وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ  کو یاد کرنے لگتا ہے ، اپنی کوتاہیوں کا ادراک و احساس تازہ ہوجاتا ہے جس سے توبہ و استغفار کی توفیق ملتی ہے ،یہ بات بھی قابل قدر ہے ورنہ جن کو اس کی توفیق نہ ملے ا ن کی محرومی باعث حسرت ہے ،حدیث پاک میں وارد ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ بیماری کوبشرطیکہ انسان صبر کرے اور کوئی شکوہ و شکایت زبان پر نہ لائے تو گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنادیتے ہیں ، اس سے بھی اعلیٰ و ارفع بات یہ ہےکہ خیال و گمان بھی اس سے پاک رہیں، حدیث پاک میں وارد ہے کہ بیماروں کی عیادت کی جائے ،بیمار کے پاس جائیں تو اسلام نے یہ ادب سکھایا ہے کہ مریض کے لئے دعا کی جائے اور یہ کلمات ورد زباں رہیں ، ’’عافاک اللہ ‘‘۔اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت نصیب فرمائے ،اللہ سبحانہ تجھے بیماری سے شفا عطا فرمائے تیرے گناہ معاف فرمائے اور تیری موت تک تیرے دین میں اور تیرے جسم میں عافیت رکھے ،(ترمذی ، ۲ ،۳۲) ’’لاَبَأْسَ طَھُوْرٌ اِنْ شَاءُ اللہُ ‘‘،پریشانی کی کوئی بات نہیں اللہ چاہے تو یہ بیماری تمہاری پاکی کا ذریعہ بنے گی یہ بھی کہ بیمار کی پیشانی پر سیدھا ہاتھ رکھا جائے اور سات مرتبہ اس دعا کا ورد کیا جائے ،’’أَسْأَلُ اللہَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ اَنْ یَّشْفِیَکَ ‘‘۔میں اس اللہ سے جو عظیم ہے اور عرش کریم کا مالک ہے یہ مانگتا ہوںکہ اللہ تعالیٰ تجھ کو شفا عطا فرمائے (ابوداؤد، ۳۱۰۶) اور مریض سے بھی دعا کی خواہش کرےکیونکہ اس کی دعائیں مقبول ہیں،خواہ وہ اپنے لئے کرے یا دوسروں کیلئے کیونکہ اس کی دعاء فرشتوں کی دعاء جیسی ہے (کتاب الاذکار للنووی /۱۱۹) عیادت کا یہ موقع عالم تصور میں رب تبارک و تعالیٰ کے دربار میں حضوری کا موقع بن جائے ،

زبان و دل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حمد و ثناء تشکر و امتنان کا مظہر بنے رہیں،اس کے لئےیہ مسنون ذکر اس قدر دھیمی آواز میں ورد زباں رہے کہ جس کو مریض سن نہ پائے ،’’اَلْحَمْدُلِلہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّاابْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلیٰ کَثِیْرمِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا‘‘تمام تعریف اس اللہ تعالیٰ کیلئے جس نے مجھے اس سے عافیت بخشی جس میں تجھ کو مبتلا کیا ہے اور بہت سی مخلوقات پر مجھ کو فضیلت دی ہے ، حدیث پاک میں وارد ہے جو کسی مریض یا مصیبت زدہ کو دیکھ کر ان کلمات کا ورد کرلے تو اللہ سبحانہ اس بیماری اور مصیبت سے اس کو تادم زیست محفوظ رکھیں گے ، (ابن ماجہ ، ۱۲۸۱/۲) ،اس کائنات میں نافع اور ضارکوئی ہے تو وہ صرف اور صرف کائنات کے خالق و مالک الہٰ و رب کی تنہاء ذات ہے ،اس کی مرضی کے بغیر ایک پتہّ بھی نہ حرکت کرسکتا ہے اور نہ ہی ٹہنی سے ٹوٹ کر گر سکتا ہے ،عام طور پر جو مریض زندگی سے مایوس ہوجاتے ہیں وہ اکثرموت کی دعا مانگنے لگتے ہیں جبکہ انسان کو ہر حال میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے خیر مانگنا چاہئے انسان کے حق میں زندگی بہتر ہے یاموت اس کا علم اُسی کو ہے اس لئے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے یہ دعائیں سکھائی ہیں ، تم میں کسی کو (جسمانی و مالی) ضرر و تکلیف لاحق ہواس کی وجہ سے وہ موت کی تمنا نہ کرے اس کو اگر ضروری ہی خیال کرےتو پھر یہ دعا مانگے،اَحْیِنِیْ مَا عَلِمْتَ الْحٰیٰوۃَ خَیْرًالِّی وَتَوَفَّنِیْ اِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاۃَ خَیْرًالِّی ۔ اے اللہ! مجھ کو اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میرے لئے زندگی (موت سے) بہتر ہو اور مجھے موت دے اس وقت جب کہ میرے لئے موت (زندگی سے) بہتر ہو۔ (مشکوۃ ۔۲/۷۹)وَاجْعَلِ الْحٰیٰوۃَ زِیَادَۃً لِّیْ فِیْ کُلِّ خَیْرٍوَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَۃً لِیْ مِنْ کُلِّ شَرٍّ(صحیح مسلم۴ /۲۰۸۷) میرے لیے زندگی کو ہر بھلائی میں اضافے کا باعث بنا دے اور موت کو میرے لیے ہر شر سے راحت کا ذریعہ بنا دے ۔اسلامی نقطہ نظر سے کوئی بیماری متعدی نہیںہے ،سیدنا محمد رسول اللہ ﷺکا بلیغ ارشاد پاک ہے ،’’لاعدوی‘ ‘ (صحیح البخاری، کتاب الطب، باب الجذام) اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ کی مرضی کے بغیر کسی کو بیماری نہیں لگ سکتی ،وہ چاہے تب ہی کوئی انسان یا جانور بیمار ہوسکتا ہے ،جبکہ دور جاہلیت میں کفار و مشرکین یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ اشیاء بذات خود مؤثرہیں اور آپ ﷺنے ’’لاعدوی‘ ‘ارشادفرماکر اس کی تردید فرمائی ہے ، بعض صحابہ نے عرض کیا کہ اونٹ جنگل میں ریوڑ کی شکل میں ہوتے ہیںان میں کا ایک جو خارش زدہ اونٹ دوسرو ںکو خارش زدہ بنادیتا ہے ،آپ ﷺنے فرمایا تو پھر پہلے کوکس نے متاثر کیا ہے ،اس ارشاد پاک سے یہ بات واضح ہے کہ ایک کی بیماری دوسرے کو بیمار نہیں کرتی یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جب تک مرضی نہ ہو کوئی بیمار نہیں ہوسکتا،جدید طبی وسائنسی تحقیق کے مطابق جذام متعدی مرض نہیں ہے ، جبکہ یہ مرض ایسا ہے جس سے لوگوں کو گھن آتی ہے ، ا عتقادی کمزوری انسان کوشکوک و شبہا ت میں مبتلا کردیتی ہے ، ایسے ہی ضعیف الاعتقاد انسانوں کیلئے فرمایا۔’’تم جذامی سے ایسے دور بھاگو جیسے شیر سے ڈر کر دور بھاگاجاتا ہے‘‘ (صحیح البخاری، کتاب الطب، باب الجذام) ، لیکن کامل الاعتقاد اللہ کے بندوں کیلئے آپ کا اسوہ و نمونہ رہبر ہے سیدنامحمد رسول اللہ ﷺنے ایک ہی پیالہ میںجذامی کے ساتھ کھانا تناول فرمایا اور ارشاد فرمایا’’كُلْ ثقة بالله وتوكلاً عليه‘‘ ظاہرہے یہ اللہ پر توکل کا اعلیٰ درجہ ہے ،جن کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ  نے توفیق دی ہے اور جن کو نبی رحمت ﷺسے سچی نسبت نصیب ہے وہ اللہ پر کمال درجہ توکل رکھتے ہیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شان یہ ہے کہ جو اس پر توکل کرلے وہ اس کےلئے کافی ہوجاتےہیں(الطلاق /۳)۔ امراض خواہ عمومی ہوں کہ وبائی جب تک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مرضی نہ ہو انسان یا انسانی سماج ان سے متاثر نہیں ہوسکتا ہے ،خالق کائنات ہی جانتے ہیں کہ اس میں کیا حکمتیں و مصلحتیں پوشیدہ ہیں ،عمومی امراض افراد کو متاثر کرتے ہیں اور وبائی امراض سے انسانی معاشرہ متاثر ہوتا ہے ، فرد ہو یا معاشرہ یہ امراض کبھی غافل انسانوں کو بیدار کرنے کیلئے آتے ہیں تو کبھی زجروتوبیخ مقصود ہوتی ہے ، کبھی گرفت و تعذیب کی صورت ہوتی ہے ، کبھی یہ انسانوں کے گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں ،تاہم اللہ کے نبی ﷺنے مہلک امراض سے بچنے کی دعا سکھائی ہے ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الّبَرَصِ وَالْجُذَامِ وَالْجُنُوْنِ وَمِنْ سَیِّیِ الْاَسْقَامِ ( النسائی۲۷۱۸ ) اے اللہ !میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں برص، جذام ، جنون اور دوسری تمام بری بیماریوں سے، سَیِّیُ الْاَسْقَامِ میںقیامت تک آنے والے جان لیوا اور لاعلاج امراض سے پناہ مانگی گئی ہے ،جس میں طاعون، ہیضہ ، سرطان، کینسر اور موجودہ تباہ کن کوروناوائرس وغیرہ جیسے مہلک امراض شامل ہیں ،سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے اللہ سبحانہ نے کوئی بیماری ایسی نہیں اُتاری کہ اس کی شفا ء کیلئے دوا نازل نہ کی ہو(حوالۂ سابق) ، طبی دنیا ترقی کے باوجود بہت سے امراض کے اسباب و علل جاننے سے عاجز ہے ، نئے نئے امراض اور وبائوں کا تجربہ انسان کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی معرفت کے دروازہ پر پہنچاتا ہے۔زندگی ہو کہ موت ،صحت ہوکہ مرض الغرض زندگی کے شعبہ سے جڑی ساری مہمات پر راز کے ایسے پردے پڑے ہیں کہ ان تک رسائی کسی کے بس میں نہیں، اس وقت حیران کن سائنسی وطبی تحقیقات کے باوجوداس کے ماہرین اور اس کے زعم میںخداو آخرت فراموش مغرور و متکبر انسان و حکمراں’’کورو نا وائرس ‘‘کی وبا کے آگے عاجز وقاصر اوراس کی قدرت کوماننے پر مجبور ہیں۔