امریکہ کا سعودی عرب میں فوج تعینات کرنے کا اعلان

   

شاہ سلمان نے سعودی عرب میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کی منظوری دیدی

واشنگٹن ؍ ریاض ۔20 جولائی۔(سیاست ڈاٹ کام) امریکی وزارت دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ خطے میں امریکی مفادات کو ’درپیش قابلِ یقین خطرات‘ کے پیشِ نظر امریکی افواج کو سعودی عرب میں تعینات کیا جا رہا ہے۔یہ اقدام خلیج میں ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کے دوران بحری راستوں کی حفاظت کیلئے اٹھایا جا رہا ہے۔سعودی عرب نے تصدیق کی ہے کہ شاہ سلمان نے علاقائی سکیورٹی اور استحکام کو مضبوط کرنے کے لیے امریکی افواج کی تعیناتی کی اجازت دیدی ہے۔سعودی وزارت خارجہ کے مطابق سعودی عرب اور امریکہ خطے کو لاحق خطرات کے پیش نظر اپنے طویل مدتی تعلقات کو مزید مستحکم کرہے ہیں۔یاد رہے کہ سنہ 2003 میں عراق جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی افواج کی سعودی عرب سے روانگی کے بعد اب یہ پہلا موقع ہو گا کہ سعودی عرب امریکی افواج کی میزبانی کرے گا۔سعودی عرب میں امریکہ کی موجودگی 1991 ء میں آپریشن ڈیزرٹ سٹارم کے تحت اس وقت شروع ہوئی تھی جب عراق نے کویت پر حملہ کر دیا تھا۔شمالی امریکہ میں بی بی سی کے نامہ نگار پیٹر بویس نے کہا کہ ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ امریکہ 500 فوجیوں کی نگرانی میں سعودی عرب کے شہزادہ سلطان کے فوجی اڈے پر فضائی دفاع کیلئے پیٹریٹ میزائل تعینات کرے گا۔اس کے علاوہ امریکہ کے منصوبے میں F-22 فائٹر طیارے شامل ہیں جو کہ ریڈار کی زد میں آئے بغیر اپنے کام کر سکتے ہیں۔ امریکہ کی سینٹرل کمانڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فوج کی تعیناتی کا مقصد حفاظتی انتظامات کو مزید بہتر کرنا ہے تاکہ خطے میں سامنے آنے والے نئے معتبر خطرات سے ہمارے فوجیوں اور ہمارے مفادات کا دفاع یقینی بنایا جاسکے۔ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات اس وقت مزید کشیدہ ہو گئے تھے جب گذشتہ سال واشنگٹن نے یکطرفہ طور پر 2015 ء کے جوہری معاہدے سے خود کو علیحدہ کر لیا۔ اس کے بعد سے امریکہ نے ایران کے تیل کے شعبے پر از سر نو پابندیاں عائد کر دیں۔گذشتہ ماہ ایران نے امریکہ کے ایک نگرانی کرنے والے ڈرون کو آبنائے ہرمز میں یہ کہتے ہوئے مار گرایا تھا کہ اس نے ایران کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔ جبکہ امریکہ نے زور دے کر کہا کہ ان کا ڈرون بین الاقوامی فضائی حدود میں تھا۔ امریکہ نے ایران پر اشتعال انگیز حملے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔امریکہ نے ایران سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاناما کے تیل بردار بحری ٹینکر اور اس پر سوار عملے کے 12 اراکین کو چھوڑ دے۔ اس ٹینکر کو اتوار کے روز بحری گشت کے دوران پاسداران انقلاب نے پکڑ لیا تھا۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ بحری ٹینکر تیل کی سمگلنگ کر رہا تھا۔اس کے بعد جمعرات کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایک امریکی جنگی جہاز نے ایران کے ایک ڈرون کو تباہ کر دیا ہے جو کہ ان کے تیل بردار جہاز کے بہت زیادہ قریب آ گیا تھا جبکہ ایران نے اپنے کسی ڈرون کے مار گرائے جانے سے انکار کیا ہے۔جمعے کو کشیدگی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب ایران نے برطانیہ کے تیل بردار جہاز ’سٹینا امپیرو‘ کو یہ کہتے ہوئے خلیج میں پکڑ لیا کہ اس نے ضابطے کی خلاف ورزی کی ہے۔ برطانیہ کے وزیرِ خارجہ جیرمی ہنٹ نے ٹینکر کو چھوڑے جانے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ایران اس کو روکے رکھتا ہے تو اس کے ’سنگین نتائج‘ ہوں گے۔اس کے علاوہ امریکہ نے خلیج عمان میں مئی اور جون کے مہینوں میں ایران پر دو دوسرے ٹینکروں پر حملے کا الزام لگایا ہے جسے تہران نے مسترد کر دیا ہے۔