امریکی کیپٹل پر حملہ

   

اس انجمن سے کوئی تعلق نہیں مگر
چلنا پڑے تو چاک گریباں بھی لے چلو
امریکی کیپٹل پر حملہ
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حامیوں کے دھاوے اور ہنگامہ آرائی و تشدد نے امریکی تہذیب کی دھجیاں اڑا دی ہیں ۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی صدر کے حامیوں نے تشدد برپا کیا ۔ امریکی کیپٹل پر حملہ کے لیے صدر ٹرمپ کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے ۔ انہوں نے اپنے حامیوں سے خطاب کرنے کے دوران اشتعال انگیز اور حامیوں کو اکسانے والی تقریر کی ۔ امریکہ کے قانونی طور پر منعقدہ صدارتی انتخاب کے تعلق سے بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہوئے موجودہ صدر ٹرمپ نے ماحول کو کشیدہ بنایا ہے ۔ سابق صدر امریکہ بارک اوباما نے ٹرمپ اور ان کے حامیوں کی کارستانیوں پر افسوس کا اظہار کیا اور اس واقعہ کو امریکی تاریخ کا بدترین واقعہ قرار دیا ۔ امریکی قوم کے لیے یہ شرمناک بات ہے کہ موجودہ صدر نے امریکی عوام کی اکثریت کے فیصلے کا احترام نہیں کیا ۔ ٹرمپ کے حامیوں نے امریکی کیپٹل پر اس وقت حملہ کیا جب کانگریس کا مشترکہ سیشن جاری تھا ، جہاں قانون سازوں نے نو منتخب صدر جوبائیڈن کے انتخاب کی تصدیق کرتے ہوئے صداقت نامہ صدارت جاری کیا ۔ 3 نومبر کے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک کے امیدوار جوبائیڈن نے 306 الکٹورل کالج ووٹوں سے کامیابی حاصل کی ۔ اس کامیابی کو امریکی صدارتی انتخاب کی تاریخ میں سب سے بڑی کامیابی قرار دیا گیا ۔ جوبائیڈن کے مقابل ری پبلکن کے ٹرمپ کو 232 ووٹس حاصل ہوئے ۔ نتائج کے بعد سے ہی صدر ٹرمپ اپنے ری پبلکن قائدین کے ساتھ امریکی قانون اور دستور کا مذاق اڑانے لگے تھے ۔ اپنے ہی ملک کی جمہوریت کو کمزور کرنے والی حرکتوں سے وہ دن بہ دن امریکی عوام کے سامنے رسوا ہورہے تھے ۔ ری پبلکن قائدین نے ٹرمپ کی شکست کو قبول نہیں کیا ہے ۔ اس لیے ٹرمپ بھی اپنی شکست تسلیم کرنے تیار نہیں ہیں ۔ ٹرمپ کا الزام ہے کہ صدارتی انتخاب میں دھاندلیاں کی گئیں اور ان کے ڈیموکریٹک حریف جوبائیڈن نے انتخابات کا ’سرقہ‘ کرلیا ۔ ٹرمپ کے الزامات کو امریکی عدالتوں نے بھی مسترد کردیا ہے ۔ امریکی عوام کو یہ دیکھ کر حیرت ہورہی ہوگی کہ ان کے فیصلے کو تسلیم نہ کر کے ٹرمپ اپنی غنڈہ گردی کا ثبوت دے رہے ہیں ۔ اب منتخب صدر جوبائیڈن کی کامیابی کی توثیق ہوچکی اور وہ امریکہ کے 46 ویں صدر بن گئے ہیں ۔ وہ 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف لیں گے ۔ اس سے قبل امریکہ کو بدامنی اور خانہ جنگی کی جانب ڈھکیلنے کی کوشش ایک سوپر پاور ملک کہلائے جانے والے امریکی عوام کے لیے صدمہ خیز ہے ۔ کیپٹل ہل پر مظاہرین کا حملہ بلا شبہ امریکی جمہوریت کا تاریک ترین واقعہ ہے ۔ اس طرح کے تشدد کو ہوا دینے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ تشدد میں چار اموات ہوئیں اور کئی زخمی بتائے گئے ہیں ۔ صدر ٹرمپ کی اشتعال انگیزی اور سوشیل میڈیا پر بھی اپنے حامیوں کو اکسانے کی کوشش افسوس ناک ہے ۔ اس لیے سوشیل میڈیا کے کئی گروپس نے ٹرمپ کے اکاونٹس کو بند کردیا ہے ۔ ٹوئیٹر ، انسٹاگرام ، فیس بک نے 24 گھنٹوں کے لیے صدر ٹرمپ کے اکاونٹس لاک کرتے ہوئے ان کی ٹوئیٹس اور پوسٹ پر اعتراضات اٹھائے ہیں ۔ کیپٹل ہل میں ہوئی ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کو ختم کیا جانا چاہئے ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہی عزت نہ کی جائے تو پھر ری پبلکن صدر اور ان کے حامیوں کے تعلق سے امریکی قانونی ادارے ، سپریم کورٹ اور جمہوری عوام کو کیا فیصلہ کرنا چاہئے یہ غور طلب ہے ۔ امریکہ میں جمہوریت پر حملے کرنے والے خود امریکی عوام ہوں گے ، یہ کبھی سوچا نہیں جاسکتا تھا ۔ اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ اگر ساری دنیا میں اقتدار کا لالچ رکھنے والی طاقتیں عوام کے جمہوری فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا شروع کردیں تو پھر ساری دنیا کے حالات تبدیل ہوتے جائیں گے ۔ ہر ملک میں ہر کوئی اپنی مرضی سے طاقت ، تشدد ، ہنگامہ آرائی سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور اس میں کامیاب ہوجائے تو پھر بدامنی ، افراتفری کا دور دورہ ہوگا ۔ امریکہ کا واقعہ ساری دنیا کے ممالک کے لیے ایک مثال نہ بن جائے ۔ اس لیے نو منتخب صدر کو نظم و نسق پر مضبوط کنٹرول رکھنے کی ضرورت ہے ۔۔