امیت شاہ کا پچھتاوا

   

دل انتہا پسند ، خرد حوصلہ شِکن
دیوانے کِس سے بات کریں بزم یار کی
امیت شاہ کا پچھتاوا
دہلی اسمبلی انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے ۔ عام آدمی پارٹی کو بھاری اکثریت سے دہلی کے عوام نے اقتدار بخشا ہے ۔ دہلی میں ترقی کی سیاست کو فروغ حاصل ہوا ہے اور عوام نے پہلی بار کام پر ووٹ دیا ہے ۔ اس کے برخلاف بی جے پی نے ساری مہم نفرت کو فروغ دینے والی چلائی تھی اور منفی طریقہ کار اختیار کیا تھا ۔ سماج میںمنافرت پھیلانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا تھا ۔ ایسے نعرے لگائے گئے تھے جس سے جنگ کا ماحول پیدا ہوتا تھا ۔ خود وزیر داخلہ امیت شاہ نے شاہین باغ کا بارہا تذکرہ کیا تھا ۔ تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ اقتدار پر قبضہ کرنے کا خواب پورا نہ ہونے کے بعد امیت شاہ کو اپنی غلطیوں کا احساس ہونے لگا ہے ۔ اب وہ یہ کہنے لگے ہیںکہ گولی مارو اور ہندوستان پاکستان جیسے نعروں سے گریز کیا جانا چاہئے تھا ۔ امیت شاہ نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ دہلی انتخابی نتائج کے تعلق سے ان کا اندازہ غلط ثابت ہوا ہے ۔ امیت شاہ جس طرح کا بیان دے رہے ہیں وہ ایک طرح سے اپنی اور پارٹی کی شبیہہ کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ جو بیانات دئے گئے تھے اور جو نعرے لگائے گئے تھے اس سے تو کوئی کامیابی نہیں ملی ہے اور نہ ہی عوام نے اسے پسند کیا ہے ۔ گذشتہ دو دن کے دوران میڈیا میں بھی بی جے پی کی شکست کے تعلق سے جو تبصرے کئے جا رہے ہیں ان میں بھی یہ واضح کیا گیا ہے کہ بی جے پی نے بالکل منفی طرز عمل اختیار کیا تھا ۔ منفی سوچ کے ساتھ انتخابی مہم چلائی تھی اور بی جے پی کی یہ عادت بن گئی ہے کہ وہ انتخابات کے موقع پر سماج میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلاتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اس طرح کی کوششوں میں اسے کئی موقعوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ اترپردیش ہو کہ دوسری ریاستوں کے انتخابات ہوں ہر موقع پر بی جے پی نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلائی ہے ۔ یہ میڈیا میں ہونے والے وہ تبصرے ہیں جن کی وجہ سے بی جے پی کو بہار میں ہونے والے انتخابات میں مشکل صورتحال درپیش ہوسکتی ہے۔ خاص طور پر تحفظات کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد بہار میںبی جے پی کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔
علاوہ ازیں دہلی میں کراری شکست کے بعد بی جے پی بہار میں نتیش کمار کے رحم و کرم پر انتخابات میں مقابلہ کرنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ اب وہ وہاں زیادہ مول بھاو نہیں کر پائے گی ۔ ساتھ ہی نتیش کمار یہ بھی مطالبہ کرسکتے ہیں کہ نفرت پھیلانے والے قائدین کو بہار کی انتخابی مہم سے دور رکھا جائے ۔ اس صورتحال میں بی جے پی زیادہ کچھ سخت گیر موقف اختیار کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ تحفظات کے مسئلہ پر رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی کے موقف میں بھی تبدیلی کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ اس صورتحال میں بھی بی جے پی کو مشکل پیش آسکتی ہے ۔ ان ہی مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امیت شاہ اس طرح کے پچھتاوے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ یہ اظہار بھی صرف دکھاوا ہی ہے کیونکہ اس طرح کے بیانات دینے والے قائدین یا وزراء کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی ان کی کوئی سرزنش کی گئی ہے ۔ ان وزراء کی ایک طرح سے حوصلہ افزائی ہی کی گئی ہے کیونکہ اشتعال انگیز اور نفرت انگیز بیانات دینے کے بعد انہیں انتخابی مہم سے دور نہیں کیا گیا بلکہ انہیں اور شدت کے ساتھ مہم کا حصہ بنایا گیا تھا ۔ یہ ایک طرح سے بی جے پی کا دوہرا معیار اور ڈوغلی پالیسی ہے اور ہمیشہ سے ہی بی جے پی نے یہی طریقہ کار اختیار کیا ہے ۔ اشتعال انگیزی کرنے اور نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے کوئی ان کی مدافعت کرتا ہے تو کوئی ان کے بیانات و نعروں کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
امیت شاہ کا جو پچھتاوا ہے وہ اس لئے معنی نہیں رکھتا کیونکہ بی جے پی کے قائدین اس طرح کے بیانات سے قابو میں آنے والے نہیںہیں۔ اس طرح کی بیان بازیوں سے خود بی جے پی نے ہمیشہ ہی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایسے بیانات دینے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔ہجومی تشدد میں ملوث افراد کو جیلوں سے رہا ہونے کے بعد گلپوشی کرتے ہوئے ایک طرح سے اعزاز دیا گیا ہے ۔ اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کے خلاف پارٹی میں کسی طرح کی کارروائی یا پچھتاوے کا اظہار تو کبھی بی جے پی کا شیوہ ہی نہیں رہا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر ناشائستہ زبان استعمال کرنے کو آج کی تاریخ میں وطیرہ بنالیا گیا ہے ۔ اب جو پچھتاوا دکھاوے کا ظاہر کیا جا رہا ہے وہ محض عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش ہے ۔ حقیقی پچھتاوا اگر ہے تو ایسی بیان بازی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے ۔