امیدواروں کیخلاف فوجداری مقدمات

   

قیدیوں اور جیلوں کی حالت سدھارنے پر توجہ کیوں نہیں ؟

حمرہ قریشی
حال ہی میں اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (ADR) اور نیشنل الیکشن واچ کی حقائق پر مبنی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی جس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے کے مقابلے میں حصہ لے رہے امیدواروں میں سے 250 ایسے امیدوار ہیں جن کے خلاف فوجداری مقدمات ہیں۔ مذکورہ تازہ حقائق پر مبنی اخباری رپورٹس کو میں پڑھتی رہی۔ بار بار پڑھتی رہی۔ واضح رہے کہ اے ڈی آر اور نیشنل الیکشن واچ کی جانب سے الیکشن کمیشن میں داخل کردہ امیدواروں کے حلف ناموں کا جائزہ لیا گیا اور اس جائزہ کی بنیاد پر یہ بات سامنے آئی کہ 250 امیدواروں کو فوجداری مقدمات کا سامنا ہے۔ دراصل اے ڈی آر اور نیشنل الیکشن واچ نے دوسرے مرحلے کے انتخابات میں حصہ لے رہے 1198 امیدواروں میں سے 1192 امیدواروں کے داخل کردہ حلف ناموں کا جائزہ لیا اور جو حقائق سامنے آئے، وہ حیرت انگیز اور چونکا دینے والے تھے۔ 250 امیدواروں میں سے 3 ایسے امیدوار ہیں جن کے خلاف قتل کے الزامات کے تحت مقدمات چل رہے ہیں۔ 24 امیدوار ایسے ہیں جن پر اقدام قتل کے مقدمات زیردوران ہیں۔ 25 امیدواروں کے حلف ناموں کا جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آئی کہ ان کے خلاف خواتین کے خلاف جرائم کی پاداش میں مقدمات درج کئے گئے اور یہ مقدمات مختلف عدالتوں میں زیردوران ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان میں سے ایک تعزیرات ہند کی دفعہ 376 کے تحت عصمت ریزی کے الزامات کا سامنا کررہا ہے۔ اے ڈی آر اور الیکشن واچ کے پیش کردہ حقائق میں یہ بھی بتایا گیا کہ 21 امیدوار ایسے ہیں جن کے خلاف نفرت پر مبنی اشتعال انگیز تقاریر کرنے اور بیانات دینے کے الزامات ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی اچھی طرح واضح کیا گیا کہ دوسرے مرحلے کے تحت جن 87 پارلیمانی حلقوں میں رائے دہی ہونے والی ہے۔ ان میں سے 52% حلقوں کو ریڈ الرٹ حلقے قرار دیا گیا ہے۔ ریڈ الرٹ حلقے ایسے حلقے ہوتے ہیں جہاں تین یا اس سے زیادہ امیدواروں نے اپنے حلف ناموں میں اس بات کا اقرار کیا ہو کہ ان کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں اور مختلف عدالتوں میں یہ مقدمات کے زیردوران ہیں۔ اس طرح کے حالات میں ہمارے ملک کے جمہوری ڈھانچہ اور انسانی اقدار کی بقاء کی امیدبہت ہی کم ہے۔ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے یقیناً ہمارا حصہ ہیں۔ ہمارے ساتھی شہری ہمارے ہم وطن ہیں۔
اس کے علاوہ کیا آپ نے سوچا ہے کہ فی الوقت ملک میں جاری موجودہ سیاسی جنون اور انتخابی مہم کے درمیان جیلوں کی بہتری اور جیلوں میں بند قیدیوں کے حالات کا حوالہ کیوں نہیں دیا جاتا؟ ان کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا؟ سیاسی قائدین جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے قیدیوں اور جیلوں کی حالتوں پر توجہ کیوں نہیں دے رہے ہیں۔ آپ اور ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ حالیہ مہینوں کے دوران اخبارات میں ایسی کئی رپورٹس منظر عام پر آئیں جن میں بتایا گیا کہ قیدیوں کو جیلوں میں کئی سنگین عارضوں یا بیماریاں لاحق ہوگئیں۔ ویسے بھی ہمارے ملک کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں۔ اس بات کی خبریں بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں کہ ان جیلوں میں قیدی ایک دوسرے پر حملے کررہے ہیں یا گنجائش سے زیادہ بھر دی گئی سیلس سے آزاد ہونے کیلئے انہیں توڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ جب رہائی دی جاتی ہے تو قیدی ان مشکل وقتوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جن سے وہ گذرتے تھے۔ گزشتہ ماہ اترپردیش کی ایک جیل میں قید مختار انصاری کے قریبی رشتہ داروں (ارکان خاندان) نے جیل حکام پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ انصاری کو جیل میں زہر دیا گیا جس کے نتیجہ میں ان کی طبیعت بگڑ گئی اور پھر ان کی موت ہوگئی۔ (یہ اور بات ہے کہ بعد میں حکام نے دعویٰ کیا کہ مختار انصاری کی موت قلب پر حملے کے نتیجہ میں ہوئی حالانکہ مختار انصاری نے اپنے بھائی اور فرزند سے بات کرتے ہوئے صاف صاف طور پر کہا تھا کہ جیل میں انہیں زہر دیا جارہا ہے)۔ اگر ہم ملک کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے قیدیوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان قیدیوں میں سے ایک بڑی تعداد یا ان کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جن کے خلاف مقدمات زیردوران ہیں اور تیکنیکی لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ بے قصور ہیں۔ اس کے باوجود ان کی زندگی کے کئی سال ضائع ہوگئے۔ انہیں قصوروار یا خاطی قرار نہیں دیا گیا، سزا بھی نہیں سنائی گئی۔ وہ برسوں سے جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اب آپ ہی اندازہ لگایئے کہ کسی انسان کی زندگی کے انتہائی قیمتی سال ضائع ہوجاتے ہیں تو اس کا کیا حال ہوگا۔ اس پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ویسے بھی ہمارے سامنے بہت ساری مایوس کن اور تاریک حقیقتیں موجود ہیں۔ اتنی تاریک ہیں کہ کوئی بھی تنہا بیٹھ کر محاسبہ کرے اور خود سے سوال پر سوال کرتا جائے۔
لکھنؤ کے سماجی جہدکار و سوشلسٹ لیڈر سندیپ پانڈے کا بیان، ای وی ایم کے خلاف اور بیالٹ پیپر کی تائید و حمایت میں ستیہ گرہ
جنرل سیکریٹری سوشلسٹ پارٹی آف انڈیا سندیپ پانڈے نے حالیہ عرصہ کے دوران ای وی ایم کے خلاف اور بیالٹ پیپر کے ذریعہ انتخابات کروانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کچھ اس طرح بیان دیا تھا۔ میں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ 20 مئی کو جب میں اسپرنگ ڈیل اسکول اندرا نگر کے اپنے مرکز رائے دہی پر ووٹ ڈالنے جاؤں گا تو میں وہاں ایک بیالٹ پیپر کا مطالبہ کروں گا۔ اگر مجھے بیالٹ پیپر فراہم نہیں کیا جائے گا تو میں کچھ نہیں کروں گا بلکہ ووٹ ڈالے بناء مرکز رائے دہی سے واپس آجاؤں گا۔ اس سلسلے میں میں نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ایک ای۔ میل کے ذریعہ آگاہ بھی کیا ہے اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لکھنؤ کو مکتوب حوالے بھی کیا جو کہ میرے ریٹرننگ آفیسر ہیں۔ یہ انتخابات کا بائیکاٹ نہیں۔ اگر مجھے ایک بیالٹ پیپر دیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں یقینا بڑی خوشی و مسرت کے ساتھ I.N.D.I.A اتحاد کے امیدوار کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کروں گا۔ میرے دوست یہ کہنے لگے ہیں کہ یہ غیردانشمندانہ اقدام ہے کیونکہ اس سے انڈیا اتحاد کے ووٹوں کا نقصان ہوگا۔ میرا ماننا یہ ہے کہ انتخابی ستیہ گرہ میں شامل مجھ جیسے لوگوں کو ای وی ایم ۔ وی وی بیالٹ کو مکمل طور پر ہٹائے بناء کم از کم بیالٹ پیپر فراہم کرنے کے بارے میں سوچ تو سکتا ہے کیونکہ ہمیں EVM-VVPAT سسٹم پر کوئی بھروسہ کوئی اعتماد نہیں ہے۔