ام المؤمنین حضرت سیدتنا خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی، مدرس جامعہ نظامیہ
نام خدیجہ، کنیت اُم ہند، لقب طاہرہ ہے۔ والد کا نام خویلدہے۔ والدہ کا نام فاطمہ بنت زید ہے۔مکہ مکرمہ کی وادی کو کفر و شرک سے پاک کرنے اور صدائے حق کو بلندکرنے میں اُسوقت موجود خواتین کی طرف سے سب سے پہلے ’’لبیک‘‘ کہنے اور پیغام حق کو دل سے قبول کرنے والی معزز خاتون ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی ہیں۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں رہ کر گزار دی۔
ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا اپنی فہم و فراست، حکمت و تدبر، ہمدردی و خیرخواہی، خدمت و اطاعت،پاکیزہ اخلاق و سیرت، رحم دلی و غریب پروری اور ان جیسی عظیم صفات کے ساتھ نورانی شعاعوں کو ایسے اجاگر کئے ہیں، جن کو قیامت تک آنے والی خواتین اپنے لئے مشعل راہ بناسکتی ہیں۔
ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا اسلام کی اشاعت و فروغ کیلئے نہ صرف اپنا مال خرچ کیا، بلکہ خود بھی اس بڑے کام کیلئے اپنے آپ کو وقف کردیا ہے۔ حضور ﷺ کی خوشنودی و رضا کا حصول، آپ رضی اللہ عنہا کی زندگی کا مقصد تھا۔ حتی کہ تمام تعلقات و رشتے بھی درِ نبی ﷺپر قربان کردیئے تھے۔ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا دکھی انسانیت کیلئے سہارا تھے، غریب و بیکسوں کیلئے امید کا مرکز تھے، یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرتے تھے، الغرض جو بھی سائل آتا، اپنی مراد کے دامن کو بھر کر لے جاتا۔
ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کے ساتھ شادی شدہ زندگی ایسے سلیقہ شعاری، دانشمندی، محبت و مودت کے ساتھ گزارے کہ آپ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد بھی اکثر و بیشتر گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرتے اور آپؓ کے اوصاف بیان کرتے۔ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا یہ وہ خوش نصیب خاتون ہیں، جنہیں حضور ﷺکے ساتھ تنہا طویل رفاقت کا عرصہ تقریبا پچیس سال کا رہا، گزارنے کا بہترین موقع ملا۔ ان پچیس سالوں میں پندرہ سال اعلان نبوت سے قبل اور دس سال اس (اعلان نبوت) کے بعد۔ اس طرح یہ زندگی انتہائی خوشگوار رہی اور تمام امت کیلئے ایک روشن و قابل تقلید مثال کا درجہ رکھتی ہے۔ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا حضور ﷺکی خدمت و اسلام کی دعوت کیلئے جس ایثار کا ثبوت دیئے، وہ اپنی مثال آپؓ ہے۔ اس صلہ و جزا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ملا، وہ قرآنی آیت کے مطابق دنیوی و اخروی زندگی میں انہیں کا حصہ تھا۔ سورہ رحمن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’اور احسان کا بدلہ بھی احسان کے سوا کیا ہے؟‘‘۔ابن ہشام نے کہا ہے کہ ’’یہ وہ پہلی خاتون رہیں، جن سے حضور ﷺنے نکاح فرمایا۔ انکی زندگی میں آپ نے کوئی دوسرا نکاح بھی نہیں کیا۔ یہاں تک کہ وہ انتقال کرگئیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا۔ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے بارے میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے متعدد روایات منقول ہیں، وہ فرماتی ہیں کہ مجھے اپنی زندگی میں ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی اور خاتون کی قسمت پر رشک نہیں آیا، حالانکہ میں نے انہیں کبھی دیکھا نہ تھا اور وہ میری شادی سے بہت پہلے ہی وفات پاچکی تھیں۔صحیح بخاری شریف میں ہے ’’ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور ﷺسے عرض کیا ’’خدیجہ برتن میں کچھ لارہی ہیں، آپؓ اُن کو خدا کا اور میرا سلام پہنچادیجئے‘‘۔ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا، اسلام کے بارے میں حضور ﷺ کی سچی مشیرہ کار تھیں۔ مالدار اور صاحب ثروت ہونے کے باوجود آپ علیہ السلام کی خدمت خود ہی کیا کرتی تھیں۔
ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کا وصال، دس رمضان المبارک دس نبوی (ہجرت سے تین سال قبل) ہوا ہے۔ اس وقت عمر تقریباً چونسٹھ سال چھ ماہ تھی۔
اِنَّا لِلّهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ o