انتخابات سے قبل مقدمات

   

طاقت سے اپنی ہم کو ڈراتے ہیں وہ مگر
ہے آج اُن کی کل وہ ہماری ہو کیا خبر
انتخابات سے قبل مقدمات
ملک میں آئندہ عام انتخابات کیلئے اب بہت کم وقت رہ گیا ہے ۔ انتخابات کے شیڈول کا بہت جلد اعلان ہوسکتا ہے اور پھر سارا ملک انتخابی ماحول میں ڈوب کر رہ جائیگا ۔ سابق میں ایسا ہوا کرتا تھا کہ جیسے ہی انتخابات کا وقت قریب آتا حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب عوام کو رجھانے اور لبھانے کیلئے نت نئے اعلانات کئے جاتے ۔ ان کے سامنے اپنے کارنامے پیش کئے جاتے اور مستقبل کیلئے سہانے خواب دکھائے جاتے اور ووٹ مانگے جاتے ۔ ویسے تو آج کے دور میںبھی کئی اعلانات کئے جا رہے ہیں۔ کانگریس کی جانب سے جس وقت سے کسانوں کے قرض معاف کرنے کے وعدوں نے کام کردکھایا ہے اسی طرح بی جے پی کیلئے بھی اب کسان اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ مرکزی بجٹ میںکسانوں کیلئے کچھ مراعات کا اعلان کیا گیا ہے ۔ ان کیلئے سالانہ امداد کی تجویز بھی بجٹ میں شامل کی گئی ہے ۔ دوسری جماعتیں بھی اب کسانوں کی اہمیت کو سمجھنے لگی ہیں۔ ویسے تو ان کی اہمیت پہلے بھی رہی ہے لیکن ان کیلئے کچھ کرنے کیلئے ہرجماعت اب آگے آتی جار ہی ہے ۔ اس سارے عمل کے دوران اس بار ایک اور چیز دیکھنے میں آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے ان مقدمات کو جھاڑ پھونک کر دوبارہ شدت کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے جن میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین یا ان کے رشتہ داروں کو ملزم بنایا گیا ہے ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان مقدمات کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ یقینی طور پر ہر مقدمہ کی تحقیقات ہونی چاہئے لیکن یہ سب کچھ اپوزیشن جماعتوںکے قائدین کو ہی نشانہ بناتے ہوئے نہیں کیا جانا چاہئے ۔ اس کے علاوہ اصل سوال یہ ہے کہ جب گذشتہ تقریبا پانچ سال سے بی جے پی برسر اقتدار ہے تو ان مقدمات کو اب تک آگے کیوں نہیں بڑھایا گیا اور اچانک انتخابات سے قبل ان میں بہت تیزی یا پھرتی دکھائی جار ہی ہے ۔ جو وقت ان مقدمات میں تیزی پیدا کرنے کا منتخب کیا گیا ہے وہ سوال کرنے کی وجہ ہے ۔ پانچ سال میں خاموشی اختیار کرکے اب ان مقدمات کو سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرنے کا جو طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے وہ قابل مذمت ہے ۔
جو مقدمات درج کئے گئے ہیں ان کی نوعیت بھی سیاسی یا معاشی نوعیت کی ہے یا پھر دیگر مقدمات ہیں ۔ یہ سنگین نوعیت کے مقدمات بھی کہے جاسکتے ہیں۔ جہاں اپوزیشن کے ملزم بنائے گئے قائدین نہیںچاہتے کہ انہیں کوئی سزائیں ہوں وہیںخود حکومت بھی ایسا لگتا ہے کہ ان مقدمات کو ان کے منطقی انجام تک پہونچانے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔ وہ ملزمین کو کیفر کردار تک پہونچانے کی بجائے ان مقدمات کے نام پر زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ خود حکومت کی نیت اس معاملہ میںصاف نہیں کہی جاسکتی ۔ جس طرح سے مرکزی ایجنسیوں کو استعمال کیا جا رہا ہے اور ان کے ذریعہ اپوزیشن کی صفوں میں خوف پیدا کرنے اور ان کے سیاسی حوصلے پست کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ انہیںانتخابات سے قبل قانونی کشاکش کا شکار کرتے ہوئے حکومت اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کرنا چاہتی ہے ۔ مقدمات کو ان کے منقطی انجام تک پہونچانے کیلئے حکومت کو سنجیدہ ہونے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن اب تک کسی بھی حکومت نے ایسے مقدمات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔ صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے ان کا استحصال کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مرکزی ایجنسیوں کو استعمال کرکے سیاسی مخالفین کے حوصلے پست کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ ایسے مقدمات کی فہرست کافی طویل ہے جن کا استحصال کیا جا رہا ہے ۔
گذشتہ چند دنوں میں ایسے کئی مواقع درپیش رہے ہیں جہاں مرکز کے منصوبوں کا راز افشا ہوتا گیا ہے ۔ سب سے پہلے تو بہار میں لالو پرساد یادو اور ان کے کئی افراد خاندان کو نشانہ بنایا گیا ۔ یو پی میں اکھیلیش یادو ‘ بنگال میں ممتابنرجی ‘ اب کانگریس کی نئی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کے شوہر رابرٹ واڈرا ‘ اس کے بعد اب شائد مزید کئی قائدین کا نمبر بھی آئے اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ خود بی جے پی کی حلیف جماعتیں بھی آئندہ وقتوں میں اس کے نشانہ پر ہوں اور ان میںشیوسینا بھی سر فہرست ہوسکتی ہے ۔ یہ طریقہ کار ملک کی وفاقی حکمرانی کے اصولوں اور جمہوریت کے تقاصوں کے مغائر ہے اورا س کا خاتمہ ہونا چاہئے ۔ حکومت کو قانونی مقدمات میںسنجیدگی اختیار کرنی چاہئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ۔