انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل ضروری

   

عیش و آرام میں اب بھی میری تنہائی ہے
جرم کس نے کیا اور کس نے سزا پائی ہے
ملک بھر میں یا کسی بھی ریاست میں جیسے ہی انتخابی شیڈول کا اعلان ہوتا ہے انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہوجاتا ہے ۔ ہر سیاسی جماعت اور امیدواروں اور سیاسی قائدین کے علاوہ دستوری اور قانونی عہدوں پر فائز افراد پر کچھ پابندیاں عائد ہوجاتی ہیں۔ سرکاری کام کاج میں بھی ایک حد قائم ہوجاتی ہے ۔ سبھی کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل کرے اور قوانین کی حلاف ورزی سے گریز کرے ۔ جو قوانین موجود ہیں ان کے مطابق انتخابات میں مقابلہ کیا جائے ۔ قواعد کے مطابق مہم چلاتے ہوئے عوام کی تائید اور ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ تاہم یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ملک کے بیشتر سیاسی قائدین اور جماعتوں اور امیدواروں کی جانب سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں اور قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ جہاں تک الیکشن کمیشن کا سوال ہے تو اسے اتنے اختیارات حاصل نہیں ہیںجتنے ہونے چاہئیں یا پھر کمیشن اس قدر تیزی سے کارروائی نہیں کرتا جتنی تیزی سے اسے کرنی چاہئے ۔ الیکشن کمیشن سے اگر کسی انتخابی ضابطہ کی خلاف ورزی کی شکایت کی بھی جائے تو کارروائی ہونے تک انتخابی عمل ہی مکمل ہوجاتا ہے اور سیاسی جماعتیں اور قائدین اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ انتخابات کے بعد یہ معاملات کہاں چلے جاتے ہیں اور کیوں ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی اس تعلق سے کچھ بھی پتہ نہیں چلتا ۔ انتخابات کے موسم میں قوانین کی دھجیاں اڑانے سے جمہوری عمل کا مذاق بن جاتا ہے ۔ ملک میں وہ لوگ برسر اقتدار آجاتے ہیں جو خود مقدمات کا سامنا کرتے ہیں اور جن پر خود قانون کی خلاف ورزی کے الزامات ہوتے ہیں تاہم یہ لوگ خود قانون ساز اداروں میں پہونچ جاتے ہیں جو ایک بھونڈا مذاق ہے ۔ ملک کی جمہوریت کے ساتھ بھی اور ملک کے عوام کے ساتھ بھی ۔ الیکشن کمیشن ہو یا نفاذ قانون کی دوسری ایجنسیاں ہوں سبھی کو با اختیار بناتے ہوئے قوانین پر عمل آوری کو یقینی بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنی چاہئے ۔
جو جماعتیں اور سیاسی قائدین اور امیدوار عوام میں اخلاقیات اور قانون کی پاسداری کرنے کا درس دیتے ہیں وہی قانون ساز اداروں تک پہونچنے کیلئے غیر قانونی طریقے اختیار کرتے ہیں۔ عوام میں نقد رقومات تقسیم کی جاتی ہیں۔ عوام کو کئی طرح کے لالچ دئے جاتے ہیں۔ انہیںتحائف کی صورت میں رشوت دی جاتی ہے ۔ انہیں اپنے مسائل اور مستقبل کے تعلق سے سوچنے کا موقع دئے بغیر ان کے ووٹ خریدے جاتے ہیں۔ اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہوئے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جاتا ہے ۔ مدہب کا بیجا استعمال کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ وزارتی عہدوں پر فائز افراد اور سربراہان حکومت تک بھی مذہبی کارڈ کھیلنے سے گریز نہیں کرتے ۔ کسی کو راست یا بالواسطہ طور پر نشانہ بناتے ہوئے قوانین کو پامال کرتے ہیں۔ کہیں مذہبی شخصیتوں کا حوالہ دیا جاتا ہے تو کہیں مذہبی رسومات کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ اس طرح سے اگر کوئی قانون ساز اداروں تک پہونچ جاتا ہے تو سوچنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ کس طرح سے قانون پر عمل کرنے کی عوام کو تلقین کرپائیں گے ۔ یہ واضح ہے کہ انتخابات میں مذہب کا سہارا نہیں لیا جاسکتا ۔ مذہبی استحصال کی کوئی اجازت عام حالات میں بھی نہیں ہے لیکن انتخابات میں ایسا لگتا ہے کہ اس تعلق سے آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں اور سیاسی جماعتیں اور قائدین اپنے فائدے کیلئے تمام حدیں پار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور فائدہ اٹھالیتے ہیں۔
ملک بھر میں انتخابات کے انعقاد کا ذمہ داار ادارہ الیکشن کمیشن ہے جسے کامل اختیارات دینے کی ضرورت ہے ۔ اسے آزاد اور کسی بھی دباو سے الگ کرنے کی ضرورت ہے ۔ الیکشن کمیشن کو بھی اپنے اختیارات کا مکمل استعمال کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ کوئی بھی چاہے کتنا ہی اثرو رسوخ رکھنے والا نہ ہو وہ انتخابای ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی جرات نہ کرسکے اور انتخابی عمل کا انعقاد ویسے ہی ممکن ہوسکے جیسا ہونا چاہئے ۔ جمہوریت کا مذاق بنانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جانی چاہئے ۔ جو کچھ بھی اصلاحات کیلئے لانے ضروری ہوں وہ بھی حکومتوں کو لانے چاہئیں تاکہ انتخابی عمل واقعی عوام کا ترجمان بن سکے ۔