انتقامی جذبہ ترک کرنا ضروری

   

الہ آباد ہائیکورٹ نے بالآخر ڈاکٹر کفیل خان کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا ہے جنہیں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف علیگڈھ میں ایک تقریر کرنے پر قومی سلامتی قانون کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا ۔ عدالت کا یہ کہنا بھی تھا کہ اس قانون کے تحت ڈاکٹر کفیل خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے ۔ ڈاکٹر کفیل خان کو 29 جنوری کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ ان پر پہلے دو فرقوں کے مابین مذہب کی بنیاد پر منافرت پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور بعد میں ان کے خلاف قومی سلامتی قانون نافذ کردیا گیا تھا ۔ یہ قانون بھی اس وقت لگایا گیا تھا جب انہیں عدالت سے ضمانت مل گئی تھی ۔ انہیں جیل سے رہا ہونے سے روکنے کیلئے یہ کارروائی کی گئی تھی جسے عدالت نے آج غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے ۔ ہائیکورٹ کے حکم تک کفیل خان کو متھورا کی جیل میں رکھا گیا تھا ۔ عدالت نے ان کی فوری رہائی کا حکم دیا ہے ۔عدالت کے حکمنامہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ اترپردیش کی آدتیہ ناتھ حکومت نے ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف انتقامی جذبہ سے کارروائی کرتے ہوئے انہیں نشانہ بنایا ہے ۔ یہ واحد کفیل خان کا مسئلہ نہیں ہے جب کسی کو حکومت نے نشانہ بنایا ہو ۔ خاص طور پر حکومت کی رائے سے اختلاف کرنے اور اس کی پالیسیوں اور اقدامات کی مخالفت کرنے والوں کو اسی طرح سے نشانہ بنانے کا ایک لامتناہی سلسلہ سا شروع ہوگیا ہے ۔ اسی وجہ سے سماج کے ایک مخصوص طبقہ میںعدم اطمینان کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور سماج میں منافرت کو عروج حاصل ہو رہا ہے ۔حکومتوں کا کام سماج میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنا اور اگر کوئی بدامنی یا عدم اطمینان کی کیفیت ہے تو اسے دور کرنا ہوتا ہے لیکن بی جے پی اقتدار میں حکومتوں کی جانب سے سماج میں منافرت پھیلانے ہی کو ترجیح دی جا رہی ہے اور اسی میں بی جے پی کو اپنا فائدہ نظر آرہا ہے ۔ اس سے سماج اور ملک کا جو نقصان ہو رہا ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی جا رہی ہے اور صرف فرقہ پرستی کا زہر گھولتے ہوئے اپنے سیاسی فائدے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسا انتقامی جذبہ ہے جو فوری طور پر ترک کردینے کی ضرورت ہے ۔ اسی میں سماج کی بہتری ہے ۔

حکومتوں کی جانب سے اپنے اختیارات اور قوانین کا بیجا استعمال بھی عام ہوگیا ہے ۔ مخالفین کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں طاقت کے بل پر خاموش کرنے کی جو روش شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اس سے جمہوریت کی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں۔ ان کے نتیجہ میں ملک کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے ۔ ہندوستان کثرت میں وحدت کی منفرد مثال رکھنے والا ملک ہے ۔ یہاں اختلاف رائے کا احترام کیا جاتا رہا ہے ۔ اختلاف رائے رکھنے والوں کا احترام کیا جاتا رہا ہے ۔ اختلاف رائے رکھنے والوں کو ٹھکانے لگانے کی روش ہندوستان میں کبھی نہیں رہی تھی ۔ اختلاف کو دشمنی نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ تعمیری اختلاف کو ہمیشہ اہمیت دی جاتی رہی ہے ۔ اس کی ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کو ساری دنیا میں ایک منفرد شناخت اور پہچان حاصل ہوئی ہے اور اس کا تحفظ کرنا سبھی کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن اس روش کو بتدریج تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ محض ایک نظریہ اورا یک فکر کو سارے ملک پر سیاسی طاقت اور عددی طاقت کے بل پر مسلط کرنے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں اور ان کی وجہ سے ملک میں عدم اطمینان کی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے ۔ ایک بات خاص طور پر نوٹ کی جاسکتی ہے کہ ایسی کارروائیاں صرف اقلیتوں اور مسلمانوں کے خلاف ہو رہی ہیں اور ان کی آواز کو کچلنے اور دبانے کیلئے سب کچھ کیا جا رہا ہے ۔ مسلمانوں میں احساس عدم تحفظ پیدا کیا جا رہا ہے اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری قرار دینے کی ہر گوشے سے ہر ممکن کوششیں شروع کی جاچکی ہیں۔

بیشتر مواقع پر عدالتوں کی جانب سے اس طرح کے مقدمات اور کارروائیوں پر حکومتوں کی اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی سرزنش بھی کی گئی ہے اس کے باوجود یہ سلسلہ رکا نہیں ہے ۔ نفاذ قانون کی ایجنسیوں کو اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور دیانت کے ساتھ کام کرنا چاہئے لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ ایجنسیاں بھی اب حکومتوں کے اشارے پر اور انہیں کے مقاصد کی تکمیل کیلئے کام کر رہی ہیں۔ نفاذ قانون کی ایجنسیوں کو اپنی پیشہ ورانہ ساکھ متاثر ہونے سے بچانا ہوگا اور عوام میں اپنا اعتماد بحال کرنا ہوگا ۔ اس کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ ایجنسیاں کسی سیاسی دباو کو تسلیم کئے بغیر کام کریں اور ایک مخصوص سوش و فکر کو مسلط کرنے کی کوششوں کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کریں۔