انسانوں سے نفرت گائے سے محبت

   

امجد خان
اترپردیش ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست ہے اور یہی وجہ ہیکہ وہاں سے پارلیمنٹ کے لئے 80 ارکان کا انتخاب عمل میں آتا ہے لیکن اس ریاست میں ماضی میں جہاں کی نمائندگی پنڈت جواہر لال نہرو، لال بہادر شاستری جیسی شخصیتیں کہا کرتی تھی فی الوقت یوگی آدتیہ ناتھ حکومت چلا رہے ہیں۔ ایک ایسی حکومت جس میں ایسا لگتا ہے کہ ترقیاتی ایجنڈہ کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ بلڈوزر، تعصب و جانبداری، فرقہ پرستی، اشتعال انگیز بیانات و تقاریر اور مظلوم اقلیتوں پر پولیس مظالم کو اولین ترجیحات میں شامل رکھا گیا ہو۔ آپ اور ہم سب نے دیکھا کہ کس طرح یوگی حکومت میں خاص طور پر مختلف بہانوں سے مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلائے گئے۔ اس کی دیکھا دیکھی مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان حکومت اور ہریانہ میں منوہر لال کتھرکی حکومت نے بھی مسلمانوں کے گھروں اور ان کی بستیوں کو بلڈوزر چلاتے ہوئے زمین دوز کردیا۔ ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرستی حقیقت میں ایک نفسیاتی بیماری ہے جس کے متاثر سیاسی قائدین ہیں جہاں وہ کسی اعلیٰ عہدہ پر ہی فائز کیوں نہ ہوں ان میں ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے تعلق سے بدترین انتقامی جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور پھر وہ اپنے مخالفین سے انتقام لینے لگتے ہیں اور یہ سب کچھ مذہب کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہیکہ وہ انسانوں کے آخری سفر کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ شمشان، قبرستان کے نام پر لوگوں کو بانٹنے لگتے ہیں۔ لباس کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کردیتے ہیں۔ کھانے پینے کی عادات و اطوار کو بنیاد بناکر لوگوں کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرتے ہیں اور پھر نفاذ قانون کی ایجنسیوں کا بھی بیجا استعمال شروع کردیا جاتا ہے۔ ہم بات کررہے تھے کہ اترپردیش کی یہ وہ ریاست ہے جہاں کی سرزمین سے ہزاروں کی تعداد میں مجاہدین آزادی اٹھے اور انگریزوں کی ناک میں دم کردیا۔ ان مجاہدین آزادی جن میں مسلم مجاہدین آزادی کی اکثریت تھی انگریزوں پر اپنی حب الوطنی کی ایسی ڈھاک بٹھائی کہ وہ دہشت و وحشت میں مبتلا ہو جایا کرتے تھے۔ انگریز ہمیشہ سے اس بات کے خواہاں رہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالا جائے۔ انہیں اتحاد و اتفاق سے دور رکھا جائے، تب ہی ہم اس ملک پر بے فکری کے ساتھ حکمرانی کرسکتے ہیں۔ بقول نوجیت سنگھ سدھو آج کالے انگریز (فرقہ پرست جماعتوں اور تنظیموں کے قائدین) وہی کام کررہے ہیں جو 1947 سے قبل انگریزوں نے کیا تھا۔ آج یہ طاقتیں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو اسی طرح تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں جس طرح کل انگریز گنگا جمنی تہذیب کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ ہاں ہم اترپردیش کی بات کررہے تھے۔ یوپی میں مسلمانوں مسلم سماجی جہد کاروں اور مسلم سیاسی قائدین کو مختلف بہانوں سے ستایا گیا اور اب بھی ستایا جارہا ہے۔ یوگی حکومت کی فرقہ پرستی اور مسلمانوں سے نفرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ چن چن کر مسلم ناموں کے شہروں یہاں تک کہ ریلوے اسٹیشنوں و بس اسٹیشنوں اور مسافر خانوں یہاں تک کہ کھیل کے میدانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ اب وہ علی گڑھ جیسے تاریخی شہر کا نام تبدیل کرکے ہری گڈھ رکھنے کا منصوبہ بنا رہی ہے اور اس ضمن میں بلدیہ نے تجویز کو منظور دیتے ہوئے ریاستی حکومت کو روانہ کردی ہے جو مرکزی حکومت کو بھیجی جائے گی جہاں تک علی گڑھ کا سوال ہے یہ 1194 سے بہت زیادہ منظر عام پر آیا۔ قطب الدین ایبک سے لے کر غیاث الدین بلبن سے بھی یہ علاقہ جڑا رہا اور سلطنت خلجی اور تغلق حکمرانوں کی حکمرانی میں علی گڑھ کو کافی اہمیت حاصل رہی۔ علی گڑھ علم و ہنر کا مرکز رہا ہے جہاں عالم اسلام کی مشہور و معروف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ بے شمار تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں۔ بہرحال یوگی حکومت وقفہ وقفہ سے ایسے کام کررہی ہے جس سے اس کی مسلم دشمنی کا اظہار ہوتا ہے۔ شاید وہ 2024 کے عام انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس طرح کے امن دشمن اور نفرت پر مبنی اقدامات کررہی ہے۔ یوگی نے گائیوں کی آبادی کا پتہ چلانے ریاست میں گائیوں کے لئے جیو ٹکنک نافذ کرنے کی بھی ہدایت دی ہے جہاں تک گائیوں کی آبادی کی تعداد کا سوال ہے اس کے لئے گائیوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیا جس میں آوارہ گائے بھی شامل ہیں۔ دی وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں یوگی حکومت کے حوالے سے بتایا کہ ریاست میں فی الوقت بے سہارا مویشیوں کی افزائش کے لئے 6889 مراکز ہیں جہاں 11.85 لاکھ گائیوں کو محفوظ رکھا گیا ہے جبکہ 1.85 لاکھ سے زیادہ گائے گاؤ سیوکوں کو سونپ دی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ 2019 میں مرکزی حکومت نے مویشی شماری کی تھی جس کے مطابق صرف اترپردیش میں مویشیوں کی تعداد 1.90 کروڑ تھی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اترپردیش کو جہاں آوارہ گائے کا مسئلہ درپیش ہے وہیں فرقہ پرستوں اور ان کی نفرت پر مبنی مہم کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔