انل امبانی کو فائدہ پہنچانے والے دو عدالتی ملازمین برخواست

,

   

چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس رنجن گوگوئی نے سپریم کورٹ کے دو ملازمین کو برخواست کر دیا ہے۔ ان دو ملازمین پر الزام ہے کہ انھوں نے کاروباری انل امبانی سے جڑے ایک جیوڈیشیل آرڈر میں چھیڑ چھاڑ کر کے انھیں فائدہ پہنچانے کی کوشش کی۔ جسٹس رنجن گوگوئی نے دونوں ملازمین کے خلاف یہ بڑا قدم بدھ کے روز اٹھایا۔ ان دونوں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ عدالتی حکم میں انھوں نے ایسی تبدیلی کی جس کی وجہ سے ایسی سوچ بن گئی کہ امبانی کو ہتک عزتی کے معاملے میں نجی طور پر پیش ہونے سے چھوٹ مل گئی تھی۔

انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلی گراف‘ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق عدالت نے یہ قدم اٹھانے کے لیے آئین کی شق 311 کے تحت ملنے والی طاقت کا استعمال کیا ہے۔ جن عدالتی ملازمین کو برخواست کیا گیا ہے ان کے نام مانو شرما اور تپن کمار چکرورتی ہیں۔ دونوں عدالت میں اسسٹنٹ رجسٹرار کے عہدہ پر مامور تھے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ کورٹ ماسٹر کا اوپن کورٹ یا ججوں کے چیمبرس میں دئیے گئے سبھی فیصلوں کو لکھنے میں اہم کردار ہوتا ہے۔

ذرائع کے مطابق شروعاتی جانچ میں جوڈیشیل آرڈر میں چھیڑ چھاڑ کیے جانے کے واضح اشارے ملے تھے جس کے پیش نظر چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے بدھ کی شام افسران کی برخواستگی کے حکم پر دستخط کر دیئے۔ ’دی ٹیلی گراف‘ نے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے سیکشن 11(13) کے تحت ملنے والی طاقت کا بھی استعمال کیا۔ اس کے تحت چیف جسٹس کو کسی ملازم کو ’مثالی حالت‘ میں عام ڈسپلن کی کارروائی کیے بغیر برخواست کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ جس حکم پر پورا تنازعہ ہوا ہے وہ 7 جنوری کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کیا گیا تھا۔ ٹیلی کام کمپنی ایرکشن نے ریلائنس کمیونکیشن کے ذریعہ 550 کروڑ روپے کی ادائیگی نہ کرنے کے بعد حکم کی خلاف ورزی کے معاملے میں انل امبانی کے خلاف سپریم کورٹ پہنچی ہے۔ جسٹس آر ایف نریمن اور جسٹس ونیت سرن کے حکم میں امبانی کو عدالتی کارروائی کے دوران ذاتی طور پر موجود رہنے کے لیے کہا گیا۔ حالانکہ ویب سائٹ پر اَپ لوڈ حکم میں NOT لفظ کے نہ ہونے سے ایسا اشارہ گیا کہ امبانی کو ذاتی طور پر پیش ہونے سے چھوٹ ملی ہے۔ 10 جنوری کو ایرکشن کے نمائندوں نے اس غلطی کی جانب دھیان دلایا، جس کے بعد ترمیم شدہ حکم اَپ لوڈ ہوا۔ اس کے بعد امبانی اس معاملے میں 12 اور 13 فروری کو عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ منگل کو وہ عدالت میں 2 گھنٹے رہے جب کہ بدھ کو وہ تقریباً پورے دن ہی عدالت میں موجود رہے۔