انڈیا اتحاد کا ممبئی اجلاس

   

میں اکیلا ہی چلاتھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

ملک میں دو درجن سے زائد اپوزیشن جماعتوں کے انڈیا اتحاد کا تیسرا اور شائدا ب تک کا سب سے اہم اجلاس ممبئی میں آئندہ چند دنوں میں ہونے والا ہے ۔ انڈیا اتحاد کا پہلا اجلاس پٹنہ میں منعقد ہوا تھا جس کے بعد یہ اتحاد عملی شکل اختیار کرنے لگا تھا ۔ اس میںمزید پیشرفت بنگلورو میں ہوئے اجلاس میں ہوئی جہاں کئی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی تھی اور اب ایک اور اجلاس ممبئی میں ہونے والا ہے ۔ ممبئی میں اجلاس کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ وہاں این سی پی اور شیوسینا میں پھوٹ ڈالنے میں بی جے پی کامیاب ہوگئی تھی اور شیوسینا سے علیحدہ گروپ کے لیڈر ایکناتھ شنڈے ریاست کے چیف منسٹر بن گئے ہیں۔ این سی پی میں پھوٹ ڈال کر باغی لیڈر اجیت پوار کو ڈپٹی چیف منسٹر بنادیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود کہا جا رہا ہے کہ وہاں کانگریس کے علاوہ شیوسینا ( ادھو ٹھاکرے گروپ ) اور این سی پی شرد پوار کا اتحاد مستحکم ہے ۔ یہ دعوے بھی کئے جا رہے ہیں کہ ایکناتھ شنڈے اور اجیت پوار کی علیحدگی کے باوجود این سی پی ۔ شیوسینا ( ادھو ) اور کانگریس کا اتحاد مہاراشٹرا میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جتنی جماعتوں نے بنگلورو اور پٹنہ میں منعقدہ اجلاسوں میں شرکت کی تھی ممبئی کے اجلاس میں اس سے زیادہ جماعتیںشامل ہوسکتی ہیں۔ مزید کچھ جماعتوں کی اس اتحاد میں شمولیت کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ ابھی یہ تو واضـح نہیںہوا ہے کہ نئی جماعتیں کونسی ہونگی تاہم یہ ضرور ہے کہ اس اجلاس میں تمام جماعتوں کے مابین نشستوں کی تقسیم کے انتہائی اہمیت کے حامل اور حساس مسئلہ پر بات چیت ہوسکتی ہے ۔ جس طرح چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے بی جے پی اور اپوزیشن کے مابین راست مقابلہ کی تجویز پیش کی ہے اس کو دیکھتے ہوئے نشستوں کی تقسیم کے مسئلہ پر بات چیت اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے ۔ یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ اس حساس مسئلہ پر کچھ جماعتوں میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے تاہم انڈیا اتحاد میں شامل جماعتیں کسی بھی طرح کے اختلافات کے اندیشوں کو مسترد کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعہ آگے بڑھنا اور پیشرفت کرنا چاہتی ہیں۔
پٹنہ ۔ بنگلورو اور پھر ممبئی اجلاس کے مابین جتنا وقت ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اس دوران تمام فریق جماعتوں کے مابین بہت کچھ پیشرفت ہوئی ہے ۔ ممبئی اجلاس میں یہ پیشرفت دکھائی دینی چاہئے ۔ اس پیشرفت کے ذریعہ متحدہ اور پوری شدت سے بی جے پی سے مقابلہ کی راہ ہموار ہوسکتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کو اس بات کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک ان میں اتحاد مستحکم اور مضبوط نہیں ہوگا اس وقت تک بی جے پی سے مقابلہ کرنا آسان نہیں رہے گا ۔ بی جے پی کو شکست دینے کیلئے نتیش کمار کی اس تجویز کو عملی شکل دینے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی کے مقابلہ میں اپوزیشن جماعتوں کا صرف ایک امیدوار میدان میں ہونا چاہئے ۔ کئی اپوزیشن جماعتیں ایک ہی نشست پر اپنے امیدوار نامزد کرتی ہیں توا س سے مخالف بی جے پی ووٹ تقسیم ہوجائیں گے اور بی جے پی کو اس کا فائدہ ہوگا ۔ بی جے پی کو اپوزیشن کی صفوں میں نفاق اور پھوٹ پیدا کرنے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ اس کے ذریعہ بی جے پی نے اب تک کافی سیاسی فائدہ اٹھایا ہے ۔ اسی حقیقت کو بہتر ڈھنگ سے نتیش کمار نے بھانپتے ہوئے جو تجویز پیش کی تھی اس کو تمام جماعتوں کی تائید تو حاصل ہوئی ہے تاہم اس کو مستحکم انداز میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں میں ایک دوسرے کے تعلق سے بدگمانیاں پیدا کرنے کوششیں بھی ہونے لگی ہیںاور یہ مزید شدت بھی اختیار کرسکتی ہیں۔ ایسے میںاپوزیشن کو زیادہ چوکس رہنے کی بھی ضرورت ہے ۔
ممبئی اجلاس کے بعد پارلیمانی انتخابات کیلئے زیادہ وقت نہیں رہے گا ۔ ایسے میںاس اجلاس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ گذشتہ اجلاس سے اب تک اپنی پیشرفت کو بھی واضح طور پر پیش کریں اور مستقبل کے منصوبوں کے تعلق سے عوام کو واقف کروائیں۔ عوام میں بھی یہ اعتماد پیدا ہونا ضروری ہے کہ انڈیا اتحاد مرکز کی نریندر مودی حکومت کا متبادل بن سکتا ہے ۔ اس کے امکانات مستحکم ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں ممبئی اجلاس کو پوری سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت ‘ بی جے پی اور ملک کے عوام کے نام ایک واضح پیام دیا جاسکے ۔