انڈیا اتحاد کا ہندوتوا سے مقابلہ

   

بی جے پی اور این ڈی اے اتحاد ہمیشہ ہی فرقہ پرستی اور ہندوتوا کا سہارا لیتے ہوئے انتخابات میں مقابلہ کرتے ہیں اور اسی کے سہارے کامیابی حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ جہاں کہیں اس اتحاد کو ہندوتوا کارڈ موثر انداز میں کھیلنے میں کامیابی نہیں ملتی وہاں انہیںانتخابات میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کئی ریاستوں میں جہاں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عوامی مسائل کو انتخابی موضوع بنایا جاتا ہے اور بی جے پی کو مذہبی کارڈ کھیلنے کا موقع نہیں ملتا وہاں اپوزیشن کو کامیابی ملتی ہے ۔ اس کی مثالیں بہار میں ملی تھیں۔ کرناٹک میں حال ہی میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں ملی تھی ۔ مغربی بنگال میں تمام تر کوشش کے بعد بی جے پی کو کراری ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اور بھی کئی ریاستیں ہیں جہاں بی جے پی اپنے ہندوتوا کارڈ کو عوام میں عام کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائی تھی ۔ ان ریاستوں میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اب جبکہ ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور آئندہ چند مہینوں میں پارلیمانی انتخابات کا بھی وقت قریب آنے لگا ہے ایسے میں جہاں اپوزیشن جماعتیں سیاسی تیاریاں کر رہی ہیں۔ نیا اتحاد انڈیا کے نام سے بنالیا گیا ہے ۔ کئی جماعتیں اس میںشامل ہو رہی ہیں۔ کئی ریاستوں میں بی جے پی کو سخت مقابلہ درپیش ہوسکتا ہے ۔ اس صورتحال میں بی جے پی کیلئے مشکل بڑھنے لگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے نام ’ انڈیا ‘ کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک کے نام ہی کو تبدیل کردینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اچانک ہی انڈیا سے بھارت کہا جانے لگا ہے ۔ ویسے بھی دونوں نام ایک ہی ہیں لیکن اپوزیشن سے نمٹنے کیلئے ملک کے نام کو انڈیا سے بدل کر بھارت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ ابھی سے فرقہ پرستی اور ہندوتوا کا کارڈ کھیلنے کی کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کوشش ملک کے وزیر اعظم بھی کرنے لگے ہیں۔ انڈیا اتحاد کو مسائل کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے چیف منسٹر ٹاملناڈو کے فرزند کے ایک بیان کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔ حکومت کے وزراء بھی اس پر رد عمل ظاہر کرنے لگے ہیں۔
انتخابات کے موسم میں اپوزیشن اور حکومتوں کے مابین ایک دوسرے پر تنقیدیں اور الزام تراشیاں عام بات ہیں۔ تاہم یہ سب کچھ سیاسی ہونا چاہئے ۔ پروگرامس اور پالیسیوں کی بنیاد پر یہ اختلاف ہونا چاہئے ۔ عوام سے وعدوں اور کارکردگی کی بنیاد پر تنقید کی جانی چاہئے تاہم ایسا نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ ایک ریاستی وزیر کے بیان کو بنیاد بناتے ہوئے مذہبی جذبات کے استحصال کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ جہاں تک چیف منسٹر اسٹالن کے فرزند کے بیان کا تعلق ہے تو انڈیا اتحاد میں شامل کئی جماعتوں نے اس سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے ۔ یہ کوئی انڈیا اتحاد کا بیان نہیں تھا اور نہ اس اتحاد کا یہ موقف ہے ۔ یہ صرف ایک شخص کی رائے ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ قابل مذمت بھی ہو ۔ تاہم اس کو بنیاد بناتے ہوئے سارے اتحاد کو نشانہ بنانا بوکھلاہٹ ہی کا ثبوت ہے ۔ ماضی میں ایسے کئی مواقع آئے تھے جب خود بی جے پی کے سینئر قائدین نے انتہائی شرمناک اور اشتعال انگیز بیانات دئے تھے ۔ بی جے پی کو ایسے بیانات پر خفت کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا ۔ بی جے پی نے بھی ان سے لا تعلقی کا اظہار کیا تھا ۔ ایسے قائدین کی سرزنش بھی کی گئی تھی ۔ تاہم بی جے پی نے اس سے کنارہ کشی کرلی تھی۔ چیف منسٹر ٹاملناڈو کے فرزند کا بیان بھی ان کا اپنا شخصی بیان ہے ۔ یہ ان کی اپنی رائے ہے ۔ اس کی بنیاد پر سارے اتحاد کو نشانہ بنانا در اصل بی جے پی کی جانب سے مذہبی جذبات کے استحصال کی کوشش ہے ۔ اس کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
ملک بھر میں جس طرح کے حالات پیدا ہونے لگے ہیں اور لوگوں کو اپوزیشن کے انڈیا اتحاد سے امیدیں پیدا ہونے لگی ہیںایسے میں بی جے پی کی جانب سے ایک بار پھر مذہبی جذبات کا سہارا لینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس طرح کی کوششوں کے ذریعہ ملک کے ماحول کو بھی متاثر کرنے سے کچھ طاقتیں گریز نہیں کریں گی ۔ ایسے میں سبھی کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے فرقہ وارانہ امن و امان اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کیلئے مذہبی جذبات کا شکار نہ ہوں بلکہ سیاسی سمجھ بوجھ اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذہبی جذبات کا استحصال کرنے والی طاقتوں کو ناکام بنائیں۔ ملک کو درپیش حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے والی جماعتوں کو مستحکم بنائیں۔