انڈیا ‘ جو بھارت ہے

   

آفتوں میں بھی رہیں ہم مطمئن
صبر سے ہی کام لینا چاہیئے
ملک میں ان دنوں ایک طرح سے اب تک کی سب سے بڑی بحث شروع ہوگئی ہے ۔ ہندوستان ‘ انڈیا ‘ بھارت یہ ہمارے اپنے ملک کے ہی نام ہیں۔ ہندوستان پر یہاں بحث نہیں ہو رہی ہے ۔ اصل بحث بھارت اور انڈیا پر ہو رہی ہے ۔ دونوں نام تقریبا ایک ہی ہیں۔ ملک کے دستور پر تحریر کیا گیا ہے کہ انڈیا جو بھارت ہے ۔ انڈیا بھی وہی ہے اور بھارت بھی وہی ہے ۔ تاہم ملک کے ناموں کے تعقل سے سیاسی مقاصد و مفادات کیلئے مباحث شروع کردئے گئے ہیں۔ ایسا محض اس لئے کیا گیا ہے کہ ملک میں اپوزیشن جماعتوں نے ایک اتحاد تشکیل دیا ہے جسے انڈیا کا نام دیا گیا ہے ۔ بی جے پی مرکز میں اور ملک کی بیشتر ریاستوں میں اپنے اقتدار کو بچانے کی جدوجہد میںمصروف ہے ۔ اس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے اور کچھ بھی کرنے کو تیار ہے ۔ ملک میں ہونے والی G-20 کانفرنس کے ضمن میں صدر جمہوریہ ہند شریمتی دروپدی مرمو کی جانب سے مندوبین کیلئے عشائیہ کا دعوت نامہ روانہ کیا گیا ہے جس میں ’ پریسیڈنٹ آف انڈیا ‘ کی بجائے پریسیڈنٹ آف بھارت تحریر کیا گیا ہے ۔ یہیں سے یہ مباحث شروع ہوگئے ہیں جو اب سارے ملک میںسبھی گوشوں میںپھیل گئے ہیں۔ ملک کا میڈیا ہو یا پھر سوشیل میڈیا ہو ۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا غیر سرکاری تنظمیں ہوں ۔ عوامی مقامات ہوں یا پھر کوئی اور جگہ سبھی جگہ یہ بحث چل رہی ہے کہ ملک کا نام کیا ہونا چاہئے ۔ کیا انڈیا کو بھارت سے تبدیل کیا جانا چاہئے ۔ اصل مسئلہ نام کی تبدیلی کا ہے ہی نہیں ۔ ملک کے دستور میںیہ لفظ تحریر ہے اور کہا گیا ہے کہ انڈیا وہی ہے جو بھارت ہے ۔ اس طرح نام کی تبدیلی کی گنجائش شائد نہیںہوسکتی ۔ تاہم بی جے پی اور مرکزی حکومت اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے یہ سارا مسئلہ چھیڑ رہی ہیں۔ جس وقت سے اپوزیشن اتحاد نے اپنا نام ’ انڈیا ‘ رکھا ہے اسی وقت سے بی جے پی کے حلقوں میںتشویش پیدا ہوگئی تھی اور اس نام کو نشانہ بنانے کی کوششیں شروع کردی گئی تھیں۔ چونکہ ملک کا نام باضابطہ طور پر تبدیل نہیں ہوا ہے اسی لئے انڈیا کا نام لے کر تنقید کرنا مشکل لگ رہا تھا اسی لئے یہ سارا مسئلہ پیدا کیا گیا ہے ۔
اب اچانک ہی ملک کے نام کو انگریزی زبان میںانڈیا تحریر کرنے کی بجائے بھارت تحریر کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایک دعوت نامہ پر تو بہت آسانی سے کیا جاسکتا تھا اور کردیا گیا ہے ۔ تاہم یہ نام صرف ایک دعوت نامہ تک محدود نہیں ہے ۔ ملک کے سب سے بڑے بینک کو ریزرو بینک آف انڈیا کہا جاتا ہے ۔ ملک کا الیکشن کمیشن الیکشن کمیشن آف انڈیا کہلاتا ہے ۔ سپریم کورٹ کو سپریم کورٹ آف انڈیا اور چیف جسٹس کو چیف جسٹس آف انڈیا کہا جاتا ہے ۔ دہلی میں انڈیا گیٹ موجود ہے ۔ ممبئی میں گیٹ وے آف انڈیا ہے ۔ اسی طرح کئی ادارے ہیں جن کے ناموں کے ساتھ انڈیا تحریر ہے ۔ ان سب کو تبدیل کرنے کیلئے اور اقوام متحدہ ہو یا پھر دوسرے عالمی فورمس ہوں وہاں لفظ انڈیا کو تبدیل کرنے کیلئے محض ایک دعوت نامہ پر تبدیل کردینا کافی نہیں ہوگا ۔ اس کیلئے ایک طویل عمل درکار ہوگا اور نریندرمودی کی حکومت اس کا سلسلہ شروع کرنا چاہتی ہے ۔ اب ایک باضابطہ بحث شروع کرتے ہوئے ملک کے ماحول کا اندازہ لگایا جا رہا ہے ۔عوامی رائے اور رد عمل کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے ۔ ٹی وی چینلس کے مباحث میں بیٹھ کر اس نام کی تبدیلی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ انڈیا نام کو انگریزوں کی غلامی کی یادگار قرار دیا جا رہا ہے ۔ یہ حوالہ نہیں دیکھا جا رہا ہے کہ ملک کے دستور میں یہ نام تحریر ہے ۔ انڈیا جو بھارت ہے ۔ اس کے علاوہ ہم انڈیا کے لوگ ‘ جیسے فقرے اور جملے بھی ملک کے دستور میں کئی دہوں سے موجود ہیں ۔
اپنے سیاسی مفادات کیلئے ویسے تو ہر جماعت جدوجہد کرتی ہے ۔ کوشش کرتی ہے تاہم جس طرح سے بی جے پی حکومت کی جانب سے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور ہر فیصلہ اور ہر کام سیاسی مفاد کیلئے کیا جا رہا ہے اس کی ماضی میں شائد ہی کوئی دلیل مل پائے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے ایک اتحاد کیلئے اس طرح کے اقدامات کرنے سے بی جے پی کی سیاسی بوکھلاہٹ کا اظہار ہوا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی کو گذشتہ دس برس میں شائد پہلی مرتبہ اپنے اقتدار کی بنیادیں لرزتی محسوس ہونے لگی ہیں ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اس طرح کی کوششوں کا آغاز کرنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ تاہم ملک کے عوام کو بھی اس معاملہ میں سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی اور ملک کے وقار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی رائے کااظہار کرنے کی ضرورت ہے ۔