اور ہم گر پڑے !

   

رفیعہ نوشین
گرنا پڑنا ، ٹھوکریں کھانا اور گر کر سنبھلنا ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہے جس کے بغیر زیادہ تر لوگوں کی زندگی مکمل نہیں ہوتی ۔ جس طرح گرے بغیر کوئی بچہ بڑا نہیں ہوتا اسی طرح گرے بغیر کوئی بڑا بوڑھا نہیں ہوتا ۔ گرنے میں ،گر کر سنبھلنے میں اور دوبارہ چلنے میں جو مزہ ہے اس کا لطف تو وہی جانیں جو گر چکے ہیں ۔ ورنہ تو بنا گرے زندگی میں رکھا ہی کیا ہے ؟؟؟ اسی لیے 26 جنوری 2019 کی ایک خوشگوار صبح کو حسب معمول مارننگ واک کے دوران ہم بھی گر پڑے جس کے نتیجے میں سیدھے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور آپریشن کی نوبت آگئی ۔
انسان کو جب بھی کسی خوشی یاغم سے پالا پڑتا ہے تو وہ اپنے رشتہ دار اور دوست احباب کواس میں شامل کرنا اولین فرض سمجھتا ہے ۔ ہم نے بھی سوچا کہ کیوں نہ اس بات کی اطلاع اپنے دوست احباب کو دے کر تھوڑی سی ہمدردیاں ہی بٹور لیں ۔
اب ہمارے دوست احباب کی فہرست کوئی مختصر تو تھی نہیں کہ دوچار لوگوں کو اطلاع دی اور بات ختم ۔ نہیں جناب ہماری فہرست احباب تو اتنی طویل ہے کہ بنیے کے کھاتے کا گمان ہوتا ہے ۔ لہذا ہم نے ایک میسیج لکھا اور سب کو واٹس ایپ کر دیا ۔ میسیج پہنچنے کی دیر تھی کہ فون بجنا شروع ہو گیا ۔
پہلا فون حیدرآباد کی معروف،مخلص ، کئی کتابوں کی مصنف و شاعر پروفیسر اشرف رفیع صاحبہ کاتھا جن کی چاہت میرے لیے زندگی کا سرمایہ ہے ۔ میں جب بھی ان سے ملتی ہوں اتنی محبتیں لٹاتی ہیں کہ میں سرشار ہوجاتی ہوں اور فخر سے میرا سر اونچا ہوجاتا ہے ۔ انہوں نے جب میرا حال سنا تو کہا پریشان مت ہونا بیٹا اللہ سب ٹھیک کر دے گا اور فی البدیہہ ایک شعر میری نذر کیا…ملاحظہ کریں :
ٹھوکریں راستے پہ لاتی ہیں !
دشمنِ راہ کام آتے ہیں !!!!
شعر سن کرہم نے اپنے آپ سے کہا اچھا تو اس کا مطلب ہم اب تک راستے پر نہیں تھے ۔ تو یقیناَراستے کی تلاش میں تو ضرور تھے اور اسی جستجو میں ٹھوکر کھا کر گر گئے ۔ جس کے بعد قوی امید ہے کہ ہم راہ راست پر ضرور آئیں گے ۔ ان شاء اللہ۔
میری نند نے فون کیا اور کہنے لگیں ارے بھابھی یہ کیا کر لیا آپ نے ؟ میں نے کہا ہڈی توڑ لی ۔ وہ تو معلوم ہے پر کیسے ؟ میں نے کہا بہت سن رکھا تھا اس بارے میں تو سوچا کہ کیوں نہ ہم بھی تجربہ کر لیں ۔ تو بس کر لیا تجربہ ۔
تایا زاد بہن نے فون کرکے بڑے ٹہرے ہوئے ا نداز میں کہا ” اچھا تو تم اسکوٹر پر سے گر گئیں ؟ ’میں نے کہا نہیں جی ‘۔ میسیج میں لکھا تو تھا کہ واک کے دوران گر گئی ۔ لیکن تم تو اسکوٹر چلاتی ہونا ؟ انہوں نے غیر یقینی انداز میں پوچھا تو میں نے کہا جی چلاتی ہوں لیکن آپ شائد یہ بھول رہی ہیں کہ اسکوٹر ،کار آٹو وغیرہ چلانے والے پیدل بھی تو چلا کرتے ہیں ۔ “سو تو ہے لیکن میں نے سوچا کہ تم یقیناّ اسکوٹر سے ہی گری ہو گی !”
انہیں اب بھی اپنی ہی بات پر یقین تھا ۔
ایک دوست کو اس بات کا بڑا تجسس تھا کہ جب ہم گرے تو ہمیں اٹھانے کے لیے کون آگے آیا ؟ وہ بار بار ایک ہی سوال کرتیں کہ اچھا یہ بتاؤ تمہیں اٹھایا کس نے ؟؟؟ میں نے کہا سن ری سکھی :
آتا ہے یہاں سب کو بلندی سے گرانا
وہ لوگ کہاں ہیں کہ جو گرتوں کو اٹھائیں ؟؟؟
چچا زاد بہن کا فون آیا تو کہنے لگیں ارے یار تم اتنی پھرتیلی اور ایکٹیو لیڈی ہو تم کیسے گر گئیں ؟ میں نے کہا ایسے ہی لوگوں کے گرنے کے مواقع زیادہ ہوتے پیں ۔ نچلا جو نہیں بیٹھتے اور پھر میں نے یہ شعر ان کی نذر کردیا :
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے کہ جو گھٹنوں کے بل چلے !
میری ایک دوست کو تو میری واکنگ سے بڑی چڑ تھی نہ جانے کیوں ؟ اور واکنگ کے دوران گرنے سے تو گویا اس کے دل میں لڈو ہی پھوٹ پڑے ۔ کہنے لگیں ’’اب دوبارہ پھر سے واکنگ کرنے جاؤ گی ؟ انداز بالکل ایسا تھا جیسے کسی شرارتی بچے کو چوٹ کھانے کے بعد دھمکایا جاتا ہے ۔ اور چھڑی دکھا دکھا کر کہا جاتا ہے ’’ اب سے کرتے شرارت ‘‘؟
لیکن ہم کوئی بچہ تو تھے نہیں جو ان کی تنبیہ سے ڈر جاتے اور فوری توبہ کرلیتے۔ ہم نے کہا ہاں جی ضرور جائیں گے ۔ دنیا میں ریل اور ہوائی جہاز کے حادثوں میں کئی لوگ جاں بحق ہو جاتے ہیں اس کے باوجود عوام ان سواریوں میں سفر کرنا ترک نہیں کرتے تو ہمیں ایک معمولی سے حادثہ کے لیے مارننگ واک کی صحت مندانہ روش ترک کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اچھا…انہوں نے ‘اچھا’ پر زور دیتے ہوئے کہا ” تو پھر ٹھیک ہے واکنگ کرتے رہو اور گرتے رہو” کہہ کر انہوں نے فون پٹخ دیا !
کچھ لوگوں کو تو مختصر سی اطلاع سے کوئی تشفی ہی نہیں ہوئی ۔ وہ گھر سے نکلنے سے لے کر گھر واپس آنے تک کا واقعہ تفصیلی طور پر جاننا چاہتے تھے ۔ جیسے کتنے بجے گھر سے نکلی تھیں؟ تنہا تھیں یا کسی کے ساتھ ؟ سڑک اوبڑ کھابڑ تو نہ تھی ؟ کس سوچ میں غلطاں تھیں ؟ گرنے کے بعد کیسا محسوس ہوا ؟ آس پاس کوئی تھا ؟ گھر کیسے پہنچیں ؟ چکر تو نہیں آئی تھی ؟ الٹیاں تو نہیں ہوئیں ؟ غرض کہ لوگوں کے سوالوں سے لگتا تھا جیسے کوئی جاسوس مجرم سے سچ اگلوانے کی کوشش میں سوالات کی بوچھار کر رہا ہو ۔ ہمیں یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی کہ لوگ اتنی تفصیلی معلومات کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ جس سے نہ تو انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے نہ ہی مریض کو سوائے اس کے کہ ایسی معلومات کومرچ مسالہ کے ساتھ دیگر دوست احباب کے گوش گزار کیا جاتا ہے ۔ اور بات ان تک پہنچتے پہنچتے کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے ۔ شاید اسی لیے کسی نے سمجھا کہ ہمارے پیر کی ہڈی ٹوٹی ، تو کسی کا گمان تھا کہ ہم آٹو سے ٹکرا گئے ۔ اور کسی کی توقع تھی کہ ہم سرجری کے لئے شہر سے باہر جانے والے ہیں ۔ اور ہم یہ سب سن کر اچنبھے میں تھے کہ یہ بات ہمارے ہی متعلق ہے یا پھر کوئی اور بھی ہے جو اسی دن اسی وقت گرا ہو ؟ مگر جب تصدیق ہوئی کہ بات ہمارے متعلق ہی ہے تو سب کو صفائی دیتے دیتے زبان خشک ہو گئی کہ حقیقت کیا ہے ۔ ایک نہ شددو شد ۔ بات یہاں تک ہوتی تو پھر بھی قابل قبول تھی !مگر لوگوں نے مفت مشورے بھی دینے شروع کر دیے ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے سماج میں ہر فرد خود کو بڑا صاحب عقل ، دانا، تجربہ کار اور تیس مار خان سمجھتا ہے ۔ تبھی تو ہر معاملہ میں اور ہر کسی کے معاملہ میں بن مانگے مشورہ دینے کو اپنا حق سمجھتا ہے ۔ اور یہ حق ، لوگ ہم پر بھی جتا رہے تھے ۔
کسی نے کہا ہڈی ٹوٹی تو آپریشن کیوں کروا رہے ہو ؟ جراح کے پاس جاؤ چار پٹیوں میں ہڈی بیٹھ جائے گی ۔
کسی نے کہا نا نا نا جراح کے پاس تو ہرگز مت جانا ۔ اتنی سختی سے ہڈی بٹھاتا ہے کہ درد کے مارے دم ہی نکل جاتا ہے ۔ اور بعض اوقات تو ہڈی غلط بھی بٹھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے زندگی بھر نقص رہ جاتا ہے اور سیدھے سادے انسان کو لوگ لنگڑا ، لُولا، اپاہج اور نہ جانے کیا کیا سمجھنے لگتے ہیں ۔
کسی نے کہا کیر ہسپتال جانا وہاں کا ڈاکٹر بہت اچھا ہے ، میرے شوہر کی ہڈی ٹوٹی تو اس نے ہی جوڑی تھی ۔
کسی نے کہا اپولو،کسی نے کہا رینبو تو کسی نے کہا نمس اور کسی نے کہا فلاں…فلاں۔ فلاں ۔گھر کی ملازمہ جو صبح سے فون پر ہونے والی ہماری گفتگو بڑے غور سے سن رہی تھی اپنی رائے دینا بھی ضروری سمجھ کر بولی دیکھو میڈم ان سب جراحوں اور دواخانوں کو بازو رکھو اورمیری بات سنو ۔ آپ نا سیدھا گھٹکیسر کو چلے جاؤ وہاں پر جڑی بوٹی کی ایسی دوا دیتے ہیں کہ ہڈی خود بخود جڑ جاتی ہے ۔
غور طلب بات تو یہ تھی کہ مشورہ دینے والے نہ صرف مشورہ دے رہے تھے بلکہ اس بات پر زوربھی دے رہے تھے کہ میں اپنا علاج اسی ڈاکٹر یا دواخانہ میں کرواؤں جس کا مشورہ انہوں نے دیا ہے ۔ غرض کہ شام ہوتے ہوتے ہمارے پاس 6 جراح 8 حکیم چار ہومیو کے ڈاکٹرس اور 25 دواخانوں کی فہرست تیار ہو چکی تھی۔ اورہم بیٹھے سوچ رہے تھے کہ ان میں سے ہم کس کے پاس جائیں ؟ کیوں کہ مشورہ دینے والے سبھی ہمارے چاہنے والے تھے اور خود ان کے خاندان والوں نے ان ڈاکٹروں سے مذکورہ ہسپتالوں میں علاج کروایا تھا ۔ افسوس تو اس بات کا تھا کہ ہماری ہڈی بھی تو ایک ہی ٹوٹی تھی ۔ کاش 25 -30 ٹوٹ جاتے تو ہر ایک کے مشورہ پر عمل کرنے کا موقع مل جاتا اور کسی کی دل شکنی نہ ہوتی ۔ اس کے لیے بھی کسی نے مشورہ دیا کہ میں حاصل شدہ سارے دواخانے کے ناموں کی پرچیاں لکھ کر ایک کٹورے میں ڈال دوں اور کسی معصوم لڑکی سے ایک پرچی نکلواؤں اور جو نام نکلے گا وہاں اپنا علاج کرواؤں ۔ گویا ہمارا علاج بھی اب لکی ڈرا سے کروانا مقصودتھا ۔ بیماری کی تکلیف اپنی جگہ تھی لیکن لوگوں کے مشوروں نے مجھے شش و پنج میں ڈال دیا اور میرے لئے فیصلہ کرنا دشوار ہو رہا تھا ۔ سر درد کے مارے پھٹا جا رہا تھا ۔ تب میں نے تہیہ کر لیا کہ میں زندگی میں کبھی بھی کسی کو کسی بھی سلسلہ میں کوئی مشورہ نہیں دوں گی جب تک کہ کوئی خود آکر انفرادی طور پر مجھ سے مشورہ نہ مانگ لے کیونکہ ذہنی کشمکش اور تذبذب کے جس دور سے میں گزر رہی تھی نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اور بھی اس دور سے گزرے۔
بہت تگ و دو کے بعد میں نے آہنی عزم کے ساتھ فیصلہ کر ہی لیا کہ میں وہ کروں گی جو مجھے مناسب،موزوں اور صحیح لگے ۔ آخر کو یہ میرے جسم اور میری زندگی کا سوال ہے۔ میں دوسروں کو اس پرہرگز حاوی ہونے نہیں دوں گی ۔ نہ ہی ان کے ہاتھوں کا کھلونہ بنوں گی ۔ اس فیصلے کے ساتھ مجھے تو کافی طمانیت حاصل ہوئی لیکن مشورہ دینے والوں کو بڑا افسوس ہوا کہ ان کے مشورے پر عمل نہیں کیا گیا ۔ اور وہ رونی سی صورت بنا کر کہنے لگے ۔ ہم نے تو اتنا اچھا مشورہ دیا تھا ۔ لیکن آپ نے مانا ہی نہیں ۔ در اصل ہمارا کہنا ہی بے کار تھا ۔ ہمدردی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا ۔ لوگ بات کومذاق سمجھ کر ٹال دیتے پیں ۔
اب انہیں کون سمجھائے کہ جو چیز مفت ہاتھ آتی ہے اس کی وقعت ہی نہیں ہوتی اب چاہے وہ دوا ہو،تعلیم ہو، ٹریننگ ہو یا کہ مشورہ ۔ اسی لیے تو لوگ سرکاری اسکول ،دواخانہ اور دیگر اسکیموں تک کم کم ہی راغب ہوتے ہیں کیونکہ لوگوں کو اس میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ یہی حال مفت کے مشوروں کا بھی ہے ۔ آپ کے مشورے سے بندے کو فائدہ ہوگیا تو ٹھیک ہے اور اگر اونچ نیچ ہو گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے ۔ نیکی برباد گناہ لازم ہو جائے گا ۔ اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ مفت کے مشوروں سے احتراز کریں ۔ خود بھی سکون سے رہیں اوردوسروں کو بھی سکون سے رہنے دیں ۔