اویسی لوک سبھا میں۔ نئے پارلیمنٹ کی عمارت ہٹلر کادور بن جائے گی‘اگر۔۔۔۔۔۔

,

   

مذکورہ اے ائی ایم ائی ایم لیڈر نے کہاکہ 75سالوں کے کاموں پر بات کی جارہی ہے تو ا س پارلیمنٹ کی ناکامیوں کاتذکرہ بھی ضروری ہے۔
حیدرآباد۔ چوکسی اورہجومی تشدد کے مختلف واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے حیدرآباد ایم پی اورکل ہند مجلس اتحاد المسلمین(اے ائی ایم ائی ایم) صدر اسدالدین اویسی نے کہاکہ اگر لوگوں کو سڑکوں پر انصاف اپنے ہاتھوں میں لینے کی ایسی اجازت دی جاتی رہے گی تو پھر ہماری جمہوریت خطرہ میں ہے۔

پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے دوران انہوں نے یہ تبصرہ کیاہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ اگر مرکز اس رحجان کو روکنے کا تلاش نہیں کرتا ہے تو پارلیمنٹ کی نئی عمارت ”ہٹلر کا دور“ بن جائے گی۔

انہوں نے کہاکہ ”جب تک ہم قانون کی بالادستی اور مکمل پیروی نہیں کرتے ہیں‘ مذکورہ نئی عمارت کی ایک اورنشان ہٹلر بن جائے گی“۔

مرکز پر نشانہ لگاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ”اس طرح کے پارلیمانی اجلاس کا انعقاد کرکے (جس سے نہ تو کوئی فائدہ ہو اورایسے بل پیش کئے جائیں (جس سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے)‘ ہم ٹیکس ادا کرنے والوں کے پیسوں برباد کرکے انگریزوں کی پیروی کررہے ہیں“۔

انہوں نے سابق کی او رموجودہ حکومتوں کا ٹی اے ڈی اے‘ یو اے پی اے‘ اے ایف ایس پی اے‘ اور پوٹا جیسے قوانین کی منظوری پر تنقید کا نشانہ بنایا جو حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کوکچلنے کے لئے استعمال کئے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ”مذکورہ غریب اور پسماندہ مسلمان‘ کشمیری‘ دلت او رقبائیلی ہماری پارلیمانی جمہوریت پر سے یقین کھورہے ہیں۔ اس لئے لوگ احتجاج کے لئے سڑکوں پر ہیں۔

چاہے وہ سی اے اے‘ کسانوں کے بل یا درج فہرست پسماندہ طبقات کے لئے تحفظات‘ یہ پارلیمنٹ ہاوز کے لئے اہم ہے کہ ہم جمہوریت کا دل رکھیں“۔انہو ں نے استفسار کیاکہ ”کیابھگت کو واپس آنا پڑیگاتاکہ ہمیں ان قوانین کے اثرات کا احساس دلایاجاسکے جو ہم نے بنائے ہیں اور پچھلے 75سالو ں میں ہمارے لوگ کے زوال کا سبب بنا ہے“۔

مذکورہ اے ائی ایم ائی ایم لیڈر نے کہاکہ 75سالوں کے کاموں پر بات کی جارہی ہے تو ا س پارلیمنٹ کی ناکامیوں کاتذکرہ بھی ضروری ہے۔

جمہوریت کی نمائندہ شکل کی ایک اور ’ناکامی‘کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اویسی نے کہاکہ لوک سبھا میں 8992ارکان میں سے اب تک 520مسلمان ہیں۔

اویسی نے کہاکہ ”اب تک کم ازکم 1070مسلم ممبر آف پارلیمنٹ ہونا چاہئے تھے۔مسلمانوں کی آبادی کا 14فیصدہونے کے باوجود انہیں پارلیمنٹ میں صرف 4.8فیصد کی نمائندگی ملتی ہے“