اُترکر حرا سے سوئے قوم آیا

   

ماہ ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی چہار سو بہاریں چھا جاتی ہیں۔ پیار و محبت اور عظمت و احترام کے جذبات امنڈنے لگتے ہیں۔ ہر طرف خوشیوں کا سماں ہوتا ہے، کیونکہ اس ماہ مبارک میں ایسی عظیم ہستی کی ولادت ہوئی، جن کی وجہ سے ضلالت و گمراہی کا موسم خزاں ختم ہوا۔ کفر و شرک، ظلم و ستم اور نفرت و عداوت کی گھٹا ٹوپ تاریکیاں کافور ہوئیں۔ ایمان و یقین، عدل و انصاف، پیار و محبت، امن و سلامتی کا پھریرا لہرایا۔ جو وجہہ تخلیق کائنات ہیں۔ یہی وہ ذات گرامی ہے، جس نے خدائے ذوالجلال کے وجود و ہستی کا ادراک و عرفان کیا اور دوسروں کو اس ذات وحدہٗ لاشریک سے آشنا فرمایا۔ وہ نہ ہوتے تو ہم نہ ہوتے، نہ زمین ہوتی، نہ آسمان ہوتا اور نہ دنیا میں توحید خالص ہوتی۔

ہم میں سے کسی نے نہ خدائے تعالی کو دیکھا ہے نہ سنا ہے، نہ اس ذات ہمتا کا ادراک کیا ہے، نہ عرفان کیا ہے، اس کے باوصف ہمارے ایمان و ایقان میں رمق برابر شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ جنت و دوزخ ہم سے اوجھل ہیں، پھر بھی ان کو مانتے ہیں۔ سابقہ انبیاء کرام کو ہم نے نہیں دیکھا، لیکن ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہم نے فرشتوں کا مشاہدہ نہیں کیا، لیکن ہمارا ان کے وجود پر ایمان ہے، کیونکہ ہمارے ایمان کی بنیاد نہ عقل و شعور پر ہے، نہ فہم و ادراک پر اور نہ ہی علم و تجربہ پر، بلکہ ہمارے ایمان کی بنیاد صرف اور صرف اس ذات اقدس پر ہے، جو خدا کے وجود کی شاہد عدل ہے اور وہ ذات مبارک ہمارے آقا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ ان کی گواہی اور بیان پر ہم سب ایمان لائے ہیں اور اسی ذات پر ہمارا بھروسہ و توکل ہے۔ ہم کو خدا کے وجود پر کسی اور دلیل و برہان کی حاجت نہیں ہے اور نہ ہی سائنسی شواہد کی چنداں ضرورت ہے۔ ہم صرف اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور بیان پر سرتسلیم خم کرتے ہیں۔
ہم مسلمان خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالی نے ہم کو توفیق دی اور ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام حق کو بہ سروچشم قبول کیا اور اللہ تعالی پر اس کی شان کے مطابق ایمان لاکر اس کے احکامات کو بہ دل و جان قبول و منظور کیا، درآں حالیکہ ساری دنیا ظاہری و محدود ترقی و تقدم کی وادیوں میں بھٹک رہی ہے۔ جزئی و ذیلی ترقی پر شاداں و فرحاں ہے اور کائنات کی اصل و حقیقت اور وجود باری تعالی سے غافل ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کل جہانوں کو وجود باری تعالی کا پتہ بتاکر فکر و تدبر، محنت و جستجو، تحقیق و تفتیش سے بے نیاز کردیا، اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا: ’’ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا‘‘۔ ایک سائنس داں اپنی ساری جوانی بحث و تحقیق اور تجربات میں صرف کرتا ہے، مختلف نشیب و فراز سے گزرتا ہے، دنیا کی خواہشات و آرام کو پاؤں تلے روند کر محدود طریقے پر اپنی تحقیق میں عمر کے آخری ایام میں کامیاب ہوکر ایک غیبی طاقت و قوت کے وجود کے اقرار پر مجبور ہو جاتا ہے، لیکن قربان جائیے ہمارے آقا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و مہربانی پر کہ آپﷺ نے پیغام توحید کو اس قدر سہل انداز میں ہم تک پہنچایا کہ جب کسی مسلمان گھرانے میں کوئی بچہ تولد ہوتا ہے تو اس کی زبان سے فہم و ادراک کے بغیر خود بخود اللہ تعالی کا نام نکلتا ہے اور وہ بچپن ہی سے اللہ تعالی کو حقیقی صانع و مالک مانتا ہے۔ ارشاد الہی ہے: ’’یقیناً اللہ تعالی نے مؤمنین پر احسان فرمایا، کیونکہ ان میں ان ہی میں سے ایک رسول کو مبعوث فرمایا، جو ان پر آیات قرآنیہ کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور یقیناً وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔
وہ ایک ایسی معجزاتی ذات گرامی ہے، جس نے تہذیب و تمدن سے کٹے ہوئے مکہ کے علاقہ میں پیدا ہوکر چودہ صدیوں قبل تجربات کی منزلوں سے گزرے بغیر حقائق کائنات کے پردوں کو ظاہر کیا، کئی ایک پوشیدہ گتھیوں کو سلجھایا، ابتدائے آفرینش سے لے کر انتہائے دنیا ، نیز قیامت کے بعد رونما ہونے والے احوال و حقائق کو اجاگر کیا، سابقہ امتوں اور ان کی تاریخ مدون کی، انبیاء کرام کے واقعات اور ان کی قوموں کے احوال بیان کئے، قیامت سے متعلق پیشین گوئیاں کیں، تہذیب و تمدن کی بنیاد ڈالی، امن اور جنگ کے اصول مرتب کئے، ضابطہ حیات کو مدون کیا اور ساری انسانیت کے لئے ایک ایسا قانون پیش کیا، جس پر چودہ صدیوں سے دنیا کے طول و عرض، خطہ خطہ اور چپہ چپہ میں بسنے والے مسلمان بہ سہولت عمل پیرا ہیں۔ ساری کائنات کے لئے آپ کی ذات گرامی مقام حیرت ہے۔ دنیا کے عظیم ترین دانشور آپﷺ کی جامع ہستی کے کمالات سے دم بخود ہیں، جس نے دنیا کو امن عالم اور بقائے باہم کا ایسا سبق پڑھایا کہ امن کے علمبرداروں کے پاس اس سے بہتر کوئی ضابطہ نہیں۔ جس ذات اقدس نے معاشرت اور طرز زندگی کے ایسے انمول نقوش چھوڑے کہ کائنات اس کا متبادل فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ جس ذات گرامی کی ساری زندگی معجزات و کرشمات سے لبریز ہے، جس کی صورت چودہویں کے چاند سے زیادہ روشن، جس کی سیرت سورج سے زیادہ درخشاں، جن کی گفتار شہد سے زیادہ شیریں، جن کے اخلاق شبنم سے زیادہ نرم، جن کی داد و دہش باد صرصر سے زیادہ تیز، جن کی ملنساری، خندہ پیشانی اور وسعت نظری کے سامنے زمین کی وسعتیں تنگ، جن کی بلند خیالی اور فکری پرواز کے سامنے ساتوں آسمان کوتاہ، جن کی عزیمت، بلند حوصلگی اور ثبات قدمی کے سامنے بلند قامت پہاڑ شرمندہ اور جن کے نور سے سارا جہاں تابندہ۔ اس ذات اقدس کے نورانی چہرے اور جمال نبوت کو جس کسی نے دیکھا، وہ دل و جان سے ان پر فدا ہو گیا۔ اسی ذات اقدس کی صحبت بافیض میں رہنے والے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے کسی زلف والی ذات کو سرخ (دھاری دار) جوڑے میں آپ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا‘‘۔ ایک اور شرف زیارت سے مشرف ہونے والے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آپﷺ کا بدن چاندی کا بنا ہوا ہے‘‘۔
(الوفاء۲:۴۰۶)

اس ذات بابرکت میں فطری طورپر اخلاقی اوصاف و محاسن جمع تھے، خالق فطرت نے اوصاف و کمالات اور انسانی اعلی خوبیوں پر آپﷺ کی تخلیق فرمائی تھی۔ چنانچہ وہ مقدس ہستی بذات خود گویا ہے کہ ’’اللہ تعالی نے میری بہترین تربیت فرمائی‘‘۔ (الشفاء، صفحہ۴۶، حاشیہ۲۹)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ ’’میں نے دس سال آپﷺ کی خدمت کی، میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ اپنے کسی ہم مجلس سے دور ہوکر (امتیازً) بیٹھے ہوں یا کسی مصافحہ کرنے والے سے آپ نے پہلے ہاتھ کھینچا ہو، تاآنکہ وہ خود ہی ہاتھ نہ کھینچ لیتا، یا کسی شخص نے آپ سے کھڑے ہوکر گفتگو کرنا چاہی ہو اور آپ پہلے اس سے پھر گئے ہوں، تاآنکہ وہ خود پھر نہ جاتا، یا کسی نے (سرگوشی کے لئے) اپنا سر آپ کے قریب کیا ہو اور آپﷺ نے اپنے سر مبارک کو اس شخص کے ہٹانے سے پہلے ہٹایا ہو‘‘۔ ایک دوسری روایت ان ہی سے منقول ہے کہ ’’آپﷺ نہ تو برا بھلا کہنے والے تھے، نہ فحش گو اور نہ لعن طعن کرنے والے۔ جب کسی کو عتاب کرنا ہوتا تو فرماتے: ’’اس کی پیشانی خاک آلود ہو‘‘۔ (ابن سعد، طبقات۱:۳۸۲)