اُمہات المؤمنین (ازواج مطہرات) مفسرۂ قرآن و حدیث اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہرضی اللہ تعالیٰ عنہا

   

حبیب محمد بن عبداللہ رفیع المرغنی

…گزشتہ سے پیوستہ …
انہوں نے پھر دریافت فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رات کی عبادت کا کیا طریقہ تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: کیا آپ لوگوں نے سورہ مزمل نہیں پڑھی؟ (ابودائود، مسند احمد)
قرآن کے ساتھ ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حدیث پر بھی عبور حاصل تھا۔ حدیث کا منبع و ماخذ چونکہ ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اسی ذات سے سب سے زیادہ تقرب حاصل تھا۔ آپؓ نے محبوب خدا کو خلوت و جلوت میں دیکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قول و فعل کا بنظر غائر مشاہدہ کیا تھا۔ اس لئے آپ سے بہتر مصدقہ روایت حدیث اور کس کی ہوسکتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کو خداداد قوت حافظہ اور فطری ذہانت و فطانت بھی حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ۲۲۱۰ احادیث مبارکہ مروی ہیں۔ یہ فضیلت کسی بھی ام المومنین کو حاصل نہیں حالانکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ایک پردہ نشین خاتون اور ام المومنین ہونے کے باعث مرد معاصرین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی طرح ہر مجلس میں نہ جاسکتی تھیں جس میں رہبر کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم موجود تھے لیکن اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنہا سے مروی احادیث کا ہزاروں کی تعداد میں ہونا اس امر کی شہادت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر نامدار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ جو آپ رضی اللہ عنہا کی نظر سے گزرا اسے ذہن میں بحسن و خوبی محفوظ کرلیا۔
اکثر روایات احادیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے صرف بیان کرنے کی حد تک رکھی ہیں مگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہ شرف حاصل تھا کہ آپ رضی اللہ عنہا نے جن احکام اور واقعات کو روایت کیا ہے ان میں سے اکثر کے اسباب و علل بھی بیان کئے ہیں اور وہ خاص حکم کن مصلحتوں کی بناء پر صادر کیا گیا اس کی تشریح بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتیں۔ گویا آپ رضی اللہ عنہا کے ذہن میں احادیث کا مکمل سیاق و سباق اور حوالہ موجود ہوتا تھا۔ بعض اوقات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو احکامات دیتے تھے ان کی مصلحتیں خود بتادیتے تھے اور کبھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے خود پوچھ لیتی تھیں۔ اس ضمن میں آپؓ کوئی خوف یا ڈر محسوس نہیں کرتی تھیں بلکہ سوال کرکے اور تسلی بخش جواب پاکر مطمئن ہوجایا کرتی تھیں۔ بے شمار ایسے واقعات ہیں جن کے اسباب اور مصلحتوں کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے مثلاً جمعہ کے روز غسل کرنا واجب ہے لیکن اس کے سبب کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے: ’’لوگ اپنے گھروں سے اور مدینہ کے باہر کی آبادی سے جمعہ کی نماز میں آکر شامل ہوتے تھے وہ گردو غبار اور پسینے سے بھرے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک آدمی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آیا۔ آپ ﷺ اس وقت میرے ہاں تشریف فرما تھے۔ آپؐ نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا کہ تم آج جمعہ کی نماز کے لئے نہالیتے تو اچھا ہوتا‘‘۔
(بخاری، کتاب الغسل)
اسی طرح عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ چار رکعت والی نمازیں سفر کی حالت میں سہولت کی خاطر دو رکعت میں بدل گئی ہیں جبکہ اس بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مکہ میں دو رکعت نماز فرض تھی۔ جب سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہجرت فرمائی تو چار رکعت فرض کی گئیں اور سفر کی نماز اپنی حالت پر چھوڑ دی گئی اور وہ دو رکعت ہی رہیں۔ ہجرت کے بعد نمازوں میں جب دو رکعتوں کی بجائے چار رکعتیں ہوگئیں تو پھر مغرب میں تین رکعتیں کیوں ہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس ضمن میں فرماتی ہیں کہ مغرب کی رکعتوں میں اضافہ اس لئے نہ ہوا کیونکہ وہ دن کی نمازکا وتر ہے۔ صبح کی نماز میں دو رکعتیں کیوں برقرار ہیں وہ چار کیوں نہ ہوئیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا فرمان ہے کہ نماز فجر میں رکعتوں کا اضافہ اس لئے نہ ہوا کیونکہ صبح کی دونوں رکعتوں میں لمبی سورتیں پڑھی جاتی ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل)
٭ ٭ ٭