اُم المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا

   

حبیب محمد بن عبداللہ رفیع المرغنی

اُمہات المؤمنین (ازواج مطہرات)

…گزشتہ سے پیوستہ …
سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی رفیقۂ حیات خدیجہ طاہرہ نے اپنی پچیس سالہ خوشگواروقابل صدافتخار ازدواجی زندگی میں انسانیت کیلئے بالعموم اور زن وشوہر کیلئے بالخصوص ضابطۂ حیات اور اصول و قوائد مرتب فرمادیئے۔ شادی کے پندرہ سال بعد بصورت قرآن آنے والے احکامات انہی اصولوں کی تکمیل کرتے نظر آئے۔ آنحضرت کی اسطرح خدمت کا حق ادا فرمایا کہ حضور آخری دم تک آپ کی وفاشعاری اور خدمت گزاری کو یاد فرماتے رہے، یہاں تک کہ آپؐ نے فرمایا ،’’میں خدیجہ کو دوست رکھنے والوں سے محبت کرتا ہوں‘‘۔رسول اللہ گھر سے باہر نکلتے ہمیشہ سیدہ خدیجہؓ کی مدح وثناء فرماتے اور انہیں یاد کرتے تھے۔ صاحبِ وما ینطق، مدح خدیجہؓ میں رطب اللسان رہے۔ آپ فرمایا کرتے: ’’وہ مجھ پر ایمان لائیں جب لوگ منکر تھے اور انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے اور اپنے مال سے اس وقت میری مدد کی جب تمام لوگوں نے مجھے مال سے محروم رکھا تھا،خدا نے مجھے ان سے اولاد دی جبکہ دیگر عورتوں سے کوئی اولاد نہ ہوئی(جو زندہ رہی)‘‘۔
آپؓ عورتوں میں سب سے پہلے ایمان لائیں اور آپؓ ابتدائے اسلام کے تین نمازیوں پیغمبر اسلام، مولائے کائنات میں سے ہیں اور سیدنا جعفر طیار سیدنا ابوطالب کے حکم پر چوتھے نمازی ہیں۔آپ نبیٔ اکرم کی وزیر باتدبیر اور بے بدل مشیرتھیں۔
نسل رسول : سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ،بقائے نسل رسول اللہ کی ضامن بن گئیں۔ آپؓ کو دو صاحبزادے ۱۔ سیدنا قاسم ، سب سے بڑے صاحبزادے تھے اور انہی کی بدولت حضور کی کنیت ابوالقاسم ہوئی۔۲۔ سیدنا عبداللہ ،دوسرے فرزند تھے جنہیں طیب و طاہر بھی کہا جاتا ہے۔ چار صاحبزادیاں: ۱۔حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا، ۲۔ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، ۳۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہااور ۴۔سیدتنا فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
عطاء الکوثر سیدتنافاطمۃ الزہرا کی ولادت بابرکت کے وقت رسول اللہ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی عمر مبارک پینتالیس سال تھی ۔حضور کی نسل مبارک آپؓ ہی سے چلی اورسادات بنی فاطمہ، کرۂ ارضی کے ہرگوشہ اور خطہ میں جلوہ نما ہیں۔ ابوسعیدخدری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا، ’’جب میں معراج سے واپس آیاتو میں نے جبرائیل سے پوچھاکہ تمہاری کوئی حاجت ہے؟تو جبرائیل نے عرض کی ، ’’یارسول اللہ! میری حاجت یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے اور میری طرف سے خدیجہ کو سلام پیش کیجئے‘‘۔ جب حضور نے سیدہ سے ملاقات فرمائی اور جبرائیل کا پیغام دیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا، ’’بے شک اللہ کی ذات سلام ہے ، اسی کی جانب سلام ہے اور اسی کی طرف سلام ہے اور جبرائیل پر بھی سلام ہے‘‘۔
احسانات خدیجہ : ام المؤمنین سیدہ خدیجہ کی بے پناہ دولت اور عظیم المرتبت شہزادی ہونے کو تمام مورخین کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تسلیم فرمایا ہے اوربارہا اس کا اعتراف فرمایا ہے۔سرور کونین ﷺسے عقد کے بعد آپ نے اپنے چچا ذاد بھائی ورقہ بن نوفل سے فرمایا، ’’یہ سارا مال لے کر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤاور کہو کہ یہ سب مال میری طرف سے ان کی خدمت میں ہدیہ ہے۔اب یہ ان کی ملکیت ہے ،جس طرح چاہیں اس کو خرچ کریں اور ان سے یہ بھی کہہ دینا میرے پاس جو کچھ ہے ،میرا مال،میرے غلام اورجو جو چیزیں میرے ماتحت، تصرف یا قبضہ میں ہیں میں نے سب کا سب ان کو ہبہ کیا‘‘۔ آپؓ کے ارشاد کے مطابق ورقہ بن نوفل گئے اور زمزم ومقام ابراہیم کے درمیان کھڑے ہوئے اور نہایت بلند آواز سے لوگوں کو پکارا: ’’اے گروہ عرب!حتمی طور پر خدیجہ تمہیں اس بات پر گواہ بناتی ہیں کہ انہوں نے اپنے نفس، اپنے مال،اپنے غلام وخدام اور وہ تمام چیزیں جن کی وہ مالکہ ہیں از قسم چوپایہ واموال ا ور ہدایاوغیرہ سب کچھ محمدؐ کو ہبہ کیا اور جو کچھ خدیجہ نے انہیں ہبہ کیا انہوں نے قبول فرما لیا ہے۔ خدیجہ نے اپنا سارا مال و متاع ان کی جلالت و عظمت کے پیش نظر اور ان کی طرف رغبت کرتے ہوئے ہبہ کیا ہے۔لہٰذاتم سب لوگ اس بات پر گواہ رہو‘‘۔ سیدہ خدیجہ نے اپنی بے پناہ دولت ساری کی ساری اپنے محبوب شوہر کو دے دی تاکہ اسلامی تحریک رکنے نہ پائے۔
فخر الدین رازی لکھتے ہیں،’’خدا نے حضور کو مال خدیجہ سے غنی بنا دیا۔ایک دن رسول خدا خدیجہ کے پاس آئے تو بیحد غمگین و ملول اور افسردہ تھے۔بی بی خدیجہ ؓنے حضور ﷺ سے عرض کی اس رنج کا سبب کیا ہے؟۔ فرمایا،یہ قحط کا زمانہ ہے۔اگر میں تمہارا مال خرچ کر دیتا ہوں تو تم سے حیا آتی ہے اور اگر اسے خرچ نہ کروں توخدا سے ڈرتا ہوں۔بی بی خدیجہؓ کے کہنے پر حضور ﷺنے قریش کو بلایا۔ان میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی تھے۔ حضرت ابوبکرصدیقؒ فرماتے ہیں کہ اُم المؤمنین نے دینار نکال نکال کر سامنے ڈھیر کر دیئے یہاں تک کہ وہ اس مقدار میں ہو گئے کہ میں ان لوگوں کو نہیں دیکھ سکتا تھا جو میرے آگے اتنے زیادہ مال کے ڈھیر کے پیچھے بیٹھے تھے۔پھر حضرت بی بی خدیجہؓ نے فرمایا،تم سب گواہ رہنا کہ میرا یہ مال اب رسول خدا کا مال ہے ، انہیں پورا پورا اختیار ہے چاہیں تو اسے خرچ فرمائیں اور چاہیں تو روک لیں‘‘۔ (جاری ہے )