اِنسان ہی اِنسانیت کا دشمن

   

رامچندر گوہا
لکھنؤ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر رادھا کمل مکرجی نے 1922ء میں ایک کتاب Principles of Comparative Economics (تقابلی معیشتوں کے اُصول) شائع کروائی۔ 100سال بعد اس کتاب کو پڑھ کر میں حیران رہ گیا کہ انہوں نے 100 سال قبل جو کتاب لکھی اور جس طرح اس میں پروفیسر مکرجی نے ہندوستانی دیہاتوں و قصبوں کی سماجی و اقتصادی زندگی پر قدرتی ماحولیات کے اثرات پر توجہ مرکوز کی، وہ قابل حیرت ہے۔ مکرجی شاید پہلے ہندوستانی اسکالر ہوں گے جو کسانوں اور زرعی شعبہ کیلئے وسائل کی مشترکہ ملکیت کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ اس سلسلے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کاشت کی اراضی کسی بھی فرد یا خاندان کی ملکیت ہوتی ہے جبکہ نہریں نہ صرف گاؤں کے کنٹرول میں ہوتی تھیں بلکہ ان کا نظم بھی گاؤں کے باغوں میں ہوتا تھا، جیسے جنگلاتی علاقہ اور گھاس پھوس سے بھرے میدان ہوتے ہیں۔ مکرجی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ خانگی ملکیت ساری کمیونٹی کے خلاف ہوتی ہے اور اسے خاص مراعات حاصل رہتی ہیں، اس لئے کبھی بھی اس کے خصوصی استعمال کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہاں گاؤں میں کسانوں کے درمیان جو اتحاد ہوتا ہے، وہ بھی مثالی ہوتا ہے۔ ان کے اقتصادی تعلقات بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ آبپاشی کا نظم اس طرح ہوتا ہے کہ کسان یا کاشت کار پانی کی مساویانہ تقسیم کو یقینی بناتے ہیں۔ مکرجی کے خیال میں مختلف افراد کو اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ غیرسماجی انفرادیت کو ترک کرے یا پھر اس کے سنگین عواقب و نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہے۔ جہاں تک آبپاشی کا نظم یا مینجمنٹ کا سوال ہے، یہ افراد کو دوسرے افراد سے قریبی اقتصادی تعلقات کیلئے مجبور کرتا ہے لیکن انگریزوں کے تسلط کے دوران ان دیسی سسٹمس کو نقصان پہنچایا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے جنگلاتی علاقوں کو گاؤں والوں کے کنٹرول سے نکال کر محکمہ جنگلات کے حوالے کردیا گیا۔ ان پر کمرشیل مقاصد کیلئے کام کیا گیا جبکہ اپنے روزگار کیلئے جنگلات کا استعمال کرنے والوں کو روک دیا گیا۔ اسے جرم قرار دیا گیا۔ تالاب اور نہریں بھی سرکاری محکمہ کے تحت کردیئے گئے اور ریاست نے ان محکموں میں عہدیداروں کے تقررات کئے ۔ مکرجی اس بارے میں لکھتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات نے لوگوں کی پہل کو مکمل طور پر نقصان پہنچایا۔ پبلک ورکس کی جو پہلے دیسی مشنری دیکھ بھال کیا کرتی تھی، اس نظام کو بھی ختم کردیا گیا۔ آج اگر دیکھا جائے تو رادھا کمل مکرجی کو پوری طرح بھلا دیا گیا۔ وہ ایک فراموش کردہ شخصیت ہے، اس کے باوجود آج بھی ان کی کتاب ان کی تحریریں ہندوستان اور عالمی سطح پر ماحولیاتی بحران پر راست بات کرتی ہیں۔
1930ء میں سوشیالوجیکل روپو میں ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان ’’سماجیات کے تئیں‘‘ ماحولیاتی طریقہ کار تھا، اس مضمون میں روایتی سماجی علوم پر بحث کی گئی، اس میں انسان کے انسان پر اثرات پر فکر و نظریات کا دائرہ تھا۔ جہاں تک ایک انسان کی دوسرے انسان پر برتری کا سوال ہے، اس معاملے میں درختوں، جانوروں اراضی اور پانی پر کنٹرول کو شمار کیا جاتا تھا اور ان تمام کو تاریخ اور معیشت میں کافی اہمیت دی۔ جہاں تک مکرجی کی کتاب کا سوال ہے، انہوں نے 100 سال قبل لکھی گئی کتاب میں آج کے حالات کی عکاسی کی ہے جہاں ماحولیات کو انسانوں کے باعث ہی نقصان پہنچ رہا ہے۔ انسانیت، انسانوں کے ہاتھوں تباہ ہورہی ہے۔ جنگلات کا کٹاؤ، گلیشیرس کا پگھلاؤ، پانی کی قلت، قحط، بارش کا نہ ہونا، حدت کا بڑھنا، زمین کا کٹاؤ یہاں تک کہ وبائیں بھی قانون قدرت میں انسانوں کی مداخلت کا نتیجہ ہیں۔ رادھا کمل مکرجی نے 100 سال قبل ہی انسانوں کو ماحولیات کے تئیں اپنی ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش کی تھی۔
اور بتایا تھا کہ شہریانے اور صنعتیانے سے جہاں انسانوں کو فائدہ ہوگا، وہیں انسان اس کے بھیانک نتائج کا سامنا بھی کرے گا۔ مکرجی نے 1934ء میں انڈین جرنل اور اکنامکس میں شائع اپنے مضمون میں واضح طور پر لکھا تھا کہ قدرت میں مداخلت کے معاشی سرگرمیوں پر خطرناک اثرات مرتب ہوں گے اور آج ویسے ہی ہورہا ہے۔ انہوں نے آبادی کے عدم توازن، زمین اور پانی کی امکانی قلت پر بھی روشنی ڈالی تھی۔ ساتھ ہی ایسے حالات کی پیش قیاسی کی جس میں زمین کی زرخیزی کے خاتمہ اور اس کے ناقابل کاشت ہوجانے کی بات کہی گئی تھی۔ مکرجی کی موت کے بعد ان کی تحریر کردہ 47 کتب منظر عام پر آئیں جو بے شمار موضوعات و مضامین پر مشتمل غیرمعمولی کتب ہیں۔ ان کی پہلی کتاب دی فاؤنڈیشن آف اکنامکس 1916ء میں منظر عام پر آئی۔ 1926ء، 1938ء ، 1940ء ، 1945ء، 1948ء، 1949ء، 1951ء، 1956ء، 1960ء اور 1964ء میں بھی ان کی اہم کتب منظر عام پر آئیں۔