آؤ کہ کوئی خواب بنیں کل کے واسطے

   

رفیعہ نوشین
راتیں مجھے بہت پسند ہیں کیونکہ وہ ہر دن کے یادوں کو بکسے میں بند کرکے خوابوں کے پننے کھول کر بیٹھ جاتی ہے ، اس لئے ہر روز جب رات کا کالا آنچل لہراتا ہے تو میرا بستر مجھے بڑے پیار سے بلاتا ہے اور میں لحاف تانے آنکھیں موندے ‘خوابوں کی نگری’ میں پہنچ جاتی ہوں ، جہاں کوئی حاکم نہیں ،جہاں صرف اور صرف میری حکومت ہوتی ہے ، جہاں میں آزادانہ طور پر وہ سب کر سکتی ہوں جو میں کرنا چاہتی ہوں ۔ میں بھر پور اعتماد کے ساتھ اس سمت کی جانب چل پڑتی ہوں جہاں میرے خواب ہیں تبھی تو میں وہ زندگی جی پاؤں گی جس کا میں نے تصور کیا تھا ۔ میں چھوٹے موٹے خواب نہیں دیکھنا چاہتی کیونکہ چھوٹے موٹے خواب دیکھنا خطر ناک ہوتا ہے جس کا علاج یہی ہے کہ میں بہت ہی ہمت کے ساتھ بڑے بڑے خواب دیکھوں کیونکہ بڑے خواب بڑے لوگوں کو راغب کرتے ہیں اور ہمارے مسائل کو چھوٹا کر دیتے ہیں ۔ہم اتنی ہی ترقی کر پائیں گے جتنے بڑے ہم خواب دیکھیں گے ، اس لئے بڑے خواب دیکھنا ضروری ہے اور ہر بڑے خواب کا آغاز ہوتا ہے خواب دیکھنے والے سے کون ہوتے ہیں خواب دیکھنے والے ؟ وہ جو اس کی تلاش میں سو جاتے ہیں یا وہ جو اسے پانے کی دھن میں جاگتے رہتے ہیں ؟ سچ پوچھو تو خواب دیکھنے کا ہنر مستقل جاگنے سے آتا ہے ۔ڈاکٹراے پی جے ،عبدالکلام کے قول کے مطابق ’’خواب وہ نہیں جو آپ سوتے وقت دیکھتے ہیں – بلکہ خواب تو وہ ہوتے ہیں جو آپ کو سونے نہیں دیتے‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ جس خواب کو ہم بار بار دیکھتے ہیں اسکی تعبیر کی توقعات زیادہ ہوتے ہیں اس لئے ہمیں چاہئے کہ اپنے خوابوں کو حقیر نہ سمجھیں بلکہ ان کا پیچھا کریں کیونکہ انہیں راستے کا علم ہوتا ہے اور یہ راستہ آسان نہیں ہوتا یہ تو صحرائے آب میں آبلہ پا سفر کی طرح ہوتا ہے ان کے حصول کے لئے اپنا یقین پختہ رکھیں تاکہ منزل تک پہنچ سکیں یاد رکھیں اگر ہم میں ہمت ہے،طاقت ہے ،جوش ہے جذبہ ہے تو ہم سماج میں ایک موثر تبدیلی لا سکتے ہیں اور اس تبدیلی کے محرک ہوں گے ہمارے خواب وہ خواب جو ہماری منزل مقصود بھی ہو سکتے ہیں ، جن کی کوئی expiry date نہیں ہوتی ۔
ہمارے سارے خواب حقیقت میں بدل سکتے ہیں -لیکن خواب کی تکمیل جادوئی نہیں ہوتی کہ ہم نے دیکھ لیا اور پورا ہوگیا ۔ اس کے لئے تو سخت محنت اور پختہ ارادہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ خواب دیکھنا وقت ضائع کرنا ہے۔ خوابوں کے جزیروں میں بسنے والے انسان محنت و مشقت سے فرار حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور کچھ کا خیال ہوتا ہے کہ ہم اپنے خوابوں کو حاصل ہی نہیں کرسکتے۔ برے وہ نہیں جو ایسا کہتے ہیں ، بلکہ بری تو ہماری سوچ ہے جو اس بات کو سچ مان لیتی ہے جبکہ خواب تو وہ حقیقت ہوتے ہیں جن کا ہم برسوں انتظار کرتے ہیں ۔ خواب وہ بیج ہے جس کی فصل ہم مستقبل میں کاٹتے ہیں۔ان کا مستقبل بہترین ہوتا ہے جو اپنے خوابوں کی خوبصورتی اور اور ا ن کی تعبیر پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو رہے ہیں تو ہمیں راستے بدلنا ہوگا لیکن اصول نہیں کیونکہ درخت اپنے پتے بدلتا ہے جڑیں نہیں مشہور شاعر جاں نثار اختر کہتے ہیں کہ :
آنکھوں میں جو بھر لوگے تو کانٹوں سے چبھیں گے
یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لئے ہیں
میں ان سے انحراف کرتے ہوئے کہتی ہوں کہ اپنے خوابوں کو صرف پلکوں پہ نہ سجاؤ-کیونکہ آنکھوں میں جو یہ خواب ہیں یہی تو اپنے ہیں ۔ نہ انہیں روٹھنے دو نہ انہیں ٹوٹنے دو بلکہ انہیں طاقت پرواز دو کہ وہ پتنگ کی طرح آسمان کی بلندیوں کو چھو سکیں کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ وہ واپس ہمارے لئے کیا لے کر آئیں گے ؟ ایک نئی زندگی ؟ نیا دوست ؟ نئی محبت یا نیا ملک ؟
جبکہ راحت اندوری کہتے ہیں :
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یانہ رکھو خواب معیاری رکھو !!!
خواب تو معیاری ہی ہوتے ہیں بلکہ ان کا معیار تو اتنا بلند ہوتا ہے کہ وہ سب کے ساتھ یکساں سلوک و برابری کا رشتہ رکھتے ہیں ۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ؟ ہماری ذات کیاہے ؟ ہمارا رنگ کیسا ہے ؟ ہم امیر ہیں کہ غریب ؟ ان کا کام تو صرف آنکھوں میں سما جانا ہے ۔ جہاں وہ بے اختیار عود کر آجاتے ہیں ۔ بچوں کی آنکھوں میں معصوم سی تمنا بن کر، نوجوانوں کی آنکھوں میں روشن مستقبل کی شکل میں تو عاشقوں کی آنکھوں میں وصال یار کی امید بن کر اور بزرگوں کی آنکھوں میں امید وبیم کی سحر بن کر اور یہ خواب سوداگر بھی تو ہوتے ہیں ،جو اپنی قیمت وصول کرنا جانتے ہیں ۔ سخت محنت ،تگو و دو،اور عزم مصمم کے روپ میں جن کے پاس خوابوں کی قیمت چکانے کی وقعت نہیں ہوتی وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ :
بڑھ کے کوئی خریدے کوئی ایسا بھی ہے یہاں ؟
میرے تمام خواب برائے فروخت ہیں
خوابوں سے خالی دل اس پرندے کی طرِح ہوتا ہے جس کے پنکھ نہیں ہوتے لیکن صرف پنکھوں سے بھی تو کچھ نہیں ہوتا اڑان تو حوصلوں سے ہوتی ہے ۔ منزلیں انہی کو ملتی ہیں جن کے خوابوں میں جان ہوتی ہے ، اس لئے ہمیں اپنے خوابوں کو جاندار بنانا ہوگا انہیں بننا ہوگا ۔کیونکہ اگر ہم اپنے خوابوں کو نہیں بنیں گے، ان کی تعبیر کے لئے کوشاں نہیں رہیں گے تو کوئی اور ہمیں ان کے خوابوں کی تکمیل کے لئے استعمال کرے گا ۔
خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا وقت صرف آج ہے ۔کل کیا پتہ ہمیں ان سب کاموں کے لئے وقت ہوگا بھی کہ نہیں ؟ خوابوں کے بارے ایک صحافی و ادیب کا ماننا ہے کہ ’’لوگ خوابوں کی تلاش میں حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں اور جستجو کے بعد حاصل ہونے والے حقائق شیرین نہیں بلکہ نوشین ہوتے ہیں‘‘۔
منزلیں بھی ضدی ہیں -راستے بھی ضدی ہیں
دیکھتے ہیں کل کیا ہو ؟ حوصلے بھی ضدی ہیں !!!