اپنے ایمان کا جائزہ لیجئے!

   

اپنے ایمان کا جائزہ لیجئے!

مولانا عبدالباسط ندوی


قالت الاعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم ،وان تطیعوا اللہ ورسولہ لایلتکم من اعمالکم شیئا،ان اللہ غفور رحیم (الحجرات:۱۴)
گنوار قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے،آپ فرمادیجیے: تم ایمان نہیں لائے، لیکن یہ کہو ہم نے اسلام کے سامنے سرجھکا دیاہے اور(لیکن) ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے، اگرتم اللہ اوراس کے رسول کے حکم پر چلو گے تواللہ تمہارے اعمال میں سے ذرابھی کمی نہیں کریں گے،یقینا اللہ بڑے بخشنے والے اور بڑے مہربان ہیں۔
قبیلہ بنو اسدکے کچھ لوگ جو بدو قسم کے تھے، آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ایمان لانے کادعوی کیا، اللہ تعالی نے ان کے ایمان کی نفی کردی اورکہا کہ تم نے اسلام کی ظاہری تابعداری قبول کرلی ہے اور بس، یعنی ظاہری طور پر مسلمان جیسے رسم و رواج کے پابند ہوگئے، تاکہ مسلمانوں والی مراعات حاصل کرسکیں، جب کہ دل کے اندر ایمان کا گزر تک نہیں ہوا،یہاں بظاہر ایمان اور اسلام میں فرق بتایا گیا کہ ایمان دل کے یقین کو کہتے ہیں اور اسلام ظاہری اعمال کو، امام قرطبی لکھتے ہیں: ’’حقیقۃ الایمان التصدیق بالقلب وأما الاسلام فقبول مااتی بہ النبی ﷺ فی الظاہر‘‘حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام کے متعلق دریافت فرمایا کہ ماالاسلام؟ تو آپ ﷺنے جواب دیا: ’’أن تشھد أن لا إلہ إلا اللہ و أن محمدا رسول اللہ و تقیم الصلوۃ و تؤتی الزکوۃ و تصوم رمضان و تحج البیت إن استطعت إلیہ سبیلا‘‘ پھرحضرت جبرئیل علیہ السلام نے ایمان کے متعلق پوچھاکہ ماالایمان؟ تو آپ ﷺنے جواب دیا: ’’ان تؤمن باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر وتؤمن بالقدر خیرہ و شرہ ‘‘ (مسلم بحوالہ مشکوۃ شریف)
ایمان واسلام کے متعلق آپ ﷺکے جواب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایمان دراصل اندر کے ایسے یقین و اعتماد کے ساتھ ان چیزوں کو ماننے کا نام ہے، جو انسان کو ان چیزوں کے تقاضے کے مطابق عمل پر ابھار دے، اور اندر کے تقاضے کے مطابق اسلام کے ارکان پر عمل کرنے میں ہی ایک مومن کا ایمان مکمل ہوگا، اگر کوئی ظاہری طور پر اسلام کے پانچوں ارکان پر عمل کرتا ہے مگر دل سے یقین و اعتقاد نہیں رکھتا تو وہ منافق ہے، اور اللہ تعالی کے نزدیک اس کا ایسا ایمان ناقابل قبول ہے،اور اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں ان تمام چیزوں پر ایمان رکھتا ہوں جن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے، مگر اس کے اعمال اس کی تصدیق نہیں کرتے تو اس کا یہ کہنا بھی عنداللہ معتبر نہیں ہوگا، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’ایمان اصطلاح شرع میں تصدیق قلبی کا نام ہے، یعنی اپنے دل سے اللہ کی توحید اور رسول کی رسالت کو سچا ماننا، اور اسلام نام ہے اعمال ظاہرہ میں اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرنے کا، لیکن شریعت میں تصدیق قلبی اس وقت تک قابل اعتبار نہیں جب تک اس کا اثر جوارح کے اعمال وافعال تک نہ پہنچ جائے، جس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ زبان سے کلمہ اسلام کا اقرار کرے ، اسی طرح اسلام اگرچہ اعمال ظاہرہ کا نام ہے؛ لیکن شریعت میں وہ اس وقت تک معتبر نہیں جب تک کہ دل میں تصدیق نہ آجائے ورنہ وہ نفاق ہے، اس طرح اسلام و ایمان مبدأ اور منتہی کے اعتبار سے الگ الگ ہیں کہ ایمان باطن اور قلب سے شروع ہوکر ظاہر اعمال تک پہنچتا ہے اور اسلام افعال ظاہرہ سے شروع ہو کر باطن کی تصدیق تک پہنچتا ہے مگر مصداق کے اعتبار سے ان دونوں میں تلازم ہے کہ ایمان اسلام کے بغیر معتبر نہیں، اور اسلام ایمان کے بغیر شرعا معتبر نہیں‘‘ (معارف القرآن)
قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں موجودہ دور کے ’’ہم جیسے مسلمانوں‘‘ کو اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہیے کہ آیا ایمان کا ہمارا دعوی انہیں بدوئوں کی طرح تو نہیں ہے کہ ہم اپنے کو بظاہر صاحب ایمان سمجھ رہے ہیں لیکن دل ہمارا اس کے یقین واعتماد سے خالی ہے، جس کی وجہ سے اللہ کی نصرت واعانت کا وعدہ پورا نہیں ہورہا ہے ، ورنہ اللہ تعالی نے تو متعدد آیتوں میں ایمان والوں کے غلبہ ونصرت کی یقین دہانی کرائی ہے، ارشادہے : ولاتہنوا ولاتحزنوا وأنتم الأعلون إن کنتم مؤمنین(سورہ آل عمران:۱۳۹)اور ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن رہے، اور اس آیت میں تو واضح طور پر مومنوں پر کافروں کے غلبہ کی نفی کی ہے،، فرمایا: لن یجعل اللہ للکافرین علی المؤمنین سبیلا(سورہ نساء:۱۴۱) اور اللہ کافروں کا مؤمنوں پر ہرگز غلبہ نہ ہونے دے گا،بایک آیت میں اللہ تعالی نے زوربدے کر مومنوں کی نصرت کااعلان فرمایا: وکان حقا علینا نصرالمؤمنین (سورہ روم:۱۴۷) اور مؤمنوں کی مددکرنا ہمارے ذمہ ہے۔
ایک جگہ ارشاد فرمایا ’’یا أیھا الذین آمنوا إن تنصروا اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم ‘‘(سورئہ محمد ، آیت:۷) (اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے (یعنی اس کے دین کی) تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمائے رکھے گا(یعنی دشمنوں کے مقابلہ میں) اور سورہ فصلت کی اس آیت میں تو اللہ تعالی نے دنیا و آخرت دونوں میں فرشتوں کے ذریعہ نصرت و حمایت کا اعلان اس انداز میں فرمایا کہ ’’إن الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملائکۃ ألا تخافوا ولا تحزنوا و أبشروا بالجنۃ التي کنتم توعدون نحن أولیاؤکم في الحیاۃ الدنیا و في الآخرۃ و لکم فیھا ما تشتھي أنفسکم و لکم فیھا ما تدعون‘‘ (فصلت، آیت:۳۰-۳۱)
(بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر اس پر قائم رہے (یعنی دین توحید اختیار کیا اور اسی پر ثابت قدم رہے)ان پر فرشتے اتریں گے کہ تم نہ اندیشہ کرو اور نہ رنج کرو اور خوش ہو جنت کے ملنے پر جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے، ہم تمہارے رفیق تھے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی رہیں گے اور تمہارے واسطے اس (جنت) میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کا تمہارا جی چاہے اور تمہارے واسطے موجود ہے جو کچھ بھی تم مانگو) اس آیت کریمہ میں ’’نحن اولیاء کم في الحیاۃ الدنیا و في الآخرۃ‘‘ پر غور کیجیے کہ اللہ تعالی فرشتوں کی زبانی یہ وعدہ کروا رہا ہے، اس دنیا کی زندگی میں بھی نصرت و حمایت کا اور آخرت میں بھی، بس شرط صرف ’’قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا‘‘ کی ہے، ذرا سوچئے، کیا آج ہماری زندگی اس پر قائم ہے اور ہم اس شرط کو پورا کررہے ہیں؟
جمعہ کے خطبہ میں اکثر خطیبوں کی زبان سے دعا کے طور پر یہ جملہ ادا ہوتا ہے۔ ’’ اللھم انصر من نصر دین محمد ﷺ و اخذل من خذل دین محمدﷺ‘‘ (اے اللہ! اس کی مدد فرما جو محمد ﷺ کے دین کی مدد کرتا ہے اور اس کو بے یار و مددگار چھوڑ دے جو محمد ﷺ کے دین کو چھوڑتا ہے)، غور کیجئے اس دعا و بددعا پر کہ ہم کس حد تک اس کے مستحق ہیں اور مستحق بن رہے ہیں۔
بلاشبہ یہ آیتیں اپنی جگہ درست و صحیح ہیں، ذرہ برابر بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں تو پھر کیا وجہ ہے ہم آج دنیا کے ہرخطہ میں کمزور و لاچار اور بے بس ہیں! غیروں کا غلبہ ہمارے اوپر ہے، اس سلسلہ میں ہمیں اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہئے کہ کہیں ہمارا دعوی ایمان بھی انہیں بدوئوں کی طرح تونہیں؟ وہ بدو لوگ اپنی دانست میں اپنے کو صاحب ایمان ہی کہہ رہے تھے وہ کوئی منافق نہیں تھے کہ جان بوجھ کر جھوٹ بول رہے ہوں؛ بلکہ ان کا ایمان ان کے دلوں میں مستحکم نہیں ہوا تھا اور وہ اپنی دانست میں اس سے اونچے مرتبہ کے مدعی ہوگئے تھے، ابن کثیر لکھتے ہیں :’’ فدل ھذا علی أن ھؤلاء الأعراب المذکورین في ھذہ الآیۃ لیسوا بمنافقین و إنما ھم مسلمون لم یستحکم الإیمان في قلوبھم فادعوا لأنفسھم مقاما أعلی مما وصلوا إلیہ فأدبوا في ذلک ، و ھذا معنی قول ابن عباس رضي اللہ عنھما و إبراھیم النخعی و قتادۃ و اختارہ ابن جریر‘‘ (تفسیر ابن کثیر)
آیت کے اس ٹکڑے وان تطیعوا اللہ ورسولہ لایلتکم من اعمالکم شیئا سے بھی اس کاپتہ چلتا ہے کہ وہ منافق نہیں تھے اگر وہ دل کی گہرائی سے اطاعت وفرمانبرداری کرنے لگتے تو اللہ تعالی ان کو مومنین کے زمرہ میں شامل فرما کر ان کے گناہوں کو معاف فرما دیتا، ارشاد ہے ’’ان اللہ غفور رحیم‘‘

         آج ہم مسلمان اسلام کے جن ظاہری ارکان کو بجا لاتے ہیں، وہ چاہے کلمہ ہو، نماز و روزہ ہو یا حج و زکوۃ ،کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ان چیزوں کو یوں ہی رواروی اور ظاہری رسم ورواج کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں؟ جمعہ میں ہماری مسجدیں بھر جاتی ہیں کہ ہر شخص اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت جمعہ کی نماز پڑھ کردینا چاہتا ہے، وہ بھی صرف نماز نہ تو خطبہ کے سننے کا اہتمام اور نہ ہی سنن کی ادائیگی، اور یہ اس لئے کہ جمعہ کے دن کی غیرحاضری سماج میں معیوب سمجھی جاتی ہے کہ فلاں شخص تو جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھتا ہے، ورنہ اگر ہمارا دل یقین واعتماد سے لبریز ہوتا تو ہر نماز میں ہماری مسجدیں آباد رہتیں،  یہی حال دوسرے اعمال کا بھی ہے، روزہ بھی اس لئے رکھتے ہیں کہ سماج و معاشرہ میں روزہ کا عام رواج ہے، نہ رکھنے پر لوگوں کی نگاہ میں برے سمجھے جائیں گے، زکوۃ، ایک تو ٹھیک سے حساب لگا کر ادا کرنے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے اور جو لوگ دیتے بھی ہیں تو احسان سمجھ کر، کہ گویا زکوۃ دے کر ہم نے بڑا احسان کیا، لوگ ہماری اس اہمیت کو سمجھیں اور ہمیں سخی کہیں، حج فرض ہوجانے کے بعد یہ رجحان ہوتا ہے کہ حج کرنے سے سماج میں حاجی صاحب کہلائیں گے اور لوگ عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور یہ سب بھی بغیر سمجھے بوجھے، اکثروں کو تو اپنے عقیدہ کا بھی پتہ نہیں، طہارت و نماز کے بھی مسائل معلوم نہیں اور نہ ہی ان چیزوں کو سیکھنے اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں، غرض ہماری اکثریت کا حال یہی ہے، مخلصین کی تعداد جو ان اعمال کو صحیح طریقہ پر پوری واقفیت کے ساتھ دینی فریضہ سمجھ کر اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہوں ، کم ہوتی چلی جارہی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے اعمال کی روح ختم ہوکر کھوکھلا جسم باقی رہ گیا ہے۔
      حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قریب ہے کہ ایک زمانہ آئے گا کہ ساری قومیں تمہارے اوپر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھانے والے پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہیں، ایک صحابی نے عرض کیا کہ کیا ہماری تعداد اس زمانے میں کم ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بلکہ تمہاری تعداد ان دنوں میں آج سے زیادہ ہوگی لیکن تم لوگوں کی حیثیت پانی کے جھاگ کی طرح ہوگی (یعنی حقیقت و روح تمہارے اندر کی ختم ہوچکی ہوگی) اور اللہ تعالی تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں وہن پیدا کردے گا، ایک صحابی نے پوچھا کہ وھن کیا چیز ہے اے اللہ کے رسول ﷺ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا دنیا کی محبت اور موت سے نفرت ۔ ’’عن ثوبان قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: یوشک الأمم أن تداعی علیکم کما تداعی الأکلۃ إلی قصعتھا، فقال قائل : و من قلۃ نحن یومئذ؟ قال: بل أنتم یومئذ کثیر و لکنکم غثاء کغثاء السیل و لینزعن اللہ من صدور عدوکم المھابۃ و لیقذفن اللہ في قلوبکم الوھن ، فقال قائل : یا رسول اللہ ماالوھن؟ قال حب الدنیا و کراھیۃ الموت‘‘  (سنن ابودائود، رقم:۴۲۹۹)

چنانچہ دنیا کی محبت نے ہم کو اس طرح اندھا کردیا کہ ہم اپنے اخروی ہر نفع و نقصان سے پرے ہو کر صرف اور صرف دنیا کے ہو کر رہ گئے ہیں اور ہمارا مقصد اچھی ملازمت، اچھا کھانا کپڑا، مکان و گاڑی اور دنیوی عہدے و مناصب رہ گئے ہیں، اور ہماری ساری کوششیں اور تگ و دو اسی دنیا کے گرد گھوم رہی ہیں، جس کے نتیجہ میں آج ہم دنیا کی سب سے حقیر و ذلیل قوم بنتے چلے جارہے ہیں، آج جبکہ ساری قومیں ہمارے خلاف محاذ آرائی کے لئے تیار بیٹھی ہیں، (بقیہ: صفحہ ۳۲؍پر)
اس وقت بھی ہم غافل اور بے خبری کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں، دین سے دوری بڑھتی ہی جارہی ہے، دنیوی اسباب و وسائل کی طرف پوری توجہ ہے اور مسبب الاسباب سے بے توجہی ہے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمان اپنے کو بدلنے کی پوری کوشش کریں، دلوں میں یقین و اعتماد کا جذبہ پیدا کریں، اللہ کی بتائی ہوئی تعلیمات واحکام کو دل وجان سے قبول کریں اور ہمارے اعمال اس کا ثبوت پیش کرنے لگیں کہ واقعی اہمیت اور ضرورت کے احساس کے ساتھ دین کو سیکھیں اور سمجھ کر عمل کریں، اپنی اولاد کے تئیں حساس ہوں اور ان کو بھی دین کی اہمیت بتاکر اس سے پوری واقفیت کرائیں، اس کا علم سکھائیں، عقائد مضبوط کرائیں، عورتوں اور بچیوں کو پردہ کے فوائد اور بے پردگی کے نقصانات سے واقف کرائیں، مغربی تہذیب جو ہمارے گھروں میں گھس آئی اس سے خود کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی محفوظ رکھنے کی کوشش کریں ، اخلاق و کردار کو درست کریں، اسلامی امتیاز و تشخص کو اپنائیں اور اپنی آمد و خرچ میں حلال و حرام کا خاص خیال رکھیں تو پھر اللہ تعالی کی نصرت وحمایت آج بھی ہمارے لئے اسی طرح اتر سکتی ہے جس طرح ہمارے اسلاف کے لئے اترتی رہی اور آج کی پوری دنیا بھی امن و سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے جس طرح ماضی میں بنی رہی۔ اللہ تعالی کا اعلان ہے ’’و اتقوا اللہ و اعلموا أن اللہ مع المتقین ‘‘ (البقرہ، ٓیت:۱۹۴) اللہ سے ڈرو اور یقین رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے، حضرت مولانا عبد الماجد دریا بادی رحمہ اللہ اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں ’’قانون الہی یہ ہے کہ اللہ کی فتح و نصرت، رحمت و عنایت شامل حال انہی لوگوں کے رہتی ہے، جو اس کی خشیت و عظمت اپنے دل میں رکھتے ہیں اور متقی ہوتے ہیں۔‘‘ (تفسیر ماجدی)

سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ