اپوزیشن زیر اقتدار ریاستوں سے مودی حکومت کا سوتیلاپن

   

روش کمار
آج کل اس بات کی خبریں بڑی تیزی سے گردش کر رہی ہے کہ دہلی میں صدر راج نافذ کیا جاس کتا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ کہیں اس کے پیچھے حکومت/ بی جے پی کی نیت میں کھوٹ تو نہیں ؟ بہرحال اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دہلی میں صدر راج نافذ ہوسکتا ہے ؟ کیا دہلی کی وزیر تعلیم آتشی سنگھ کا یہ دعویٰ درست ہے ؟ آتشی نے پہلے بھی کہا کہ حکومت دہلی کو زوال سے دوچار کرنے کی سازش ہورہی ہے ۔ کچھ دنوں کے بعد ایک اور وزیر راج کمار آنند نے استعفیٰ دے دیا ۔ اسمبلی کی رکنیت سے بھی مستعفی ہوگئے ، ساتھ ہی عام آدمی پارٹی کو بھی خیر باد کہہ دیا۔ اس سے لگتا ہے کہ آتشی کا اندازہ صحیح ثابت ہونے والا ہے۔ مودی حکومت کے دس سال میں حکومتیں گرانے اور پارٹیاں ٹوٹنے کے کون کون سے نئے طریقے آزمائے گئے اور مودی حکومت کی شروعات بھی صدر راج نافذ کرنے سے ہوتی ہے ۔ اس کی بات اب کیوں نہیں ہوتی ، کیوں صدر راج کا راستہ چھوڑ کر اپوزیشن زیر اقتدار ریاست حکومتوں کو گرانے اور اپوزیشن کو ختم کرنے کا نیا راستہ تلاش کیا گیا ۔ ایک بات ضرور ہے کہ مودی حکومت میں اپوزیشن کی زیر قیادت ریاستوں کو ایک طرح سے معذور کردیا گیا تاکہ وہ دوڑنے لگیں تو گرجائیں۔ آتشی سنگھ کے مطابق عاپ کی حکومت اروند کجریوال کی حکومت کے خلاف ایک بہت بڑی سیاسی سازش رچی گئی ہے جس پر بہت ہی خطرناک انداز میں عمل کیا جارہا ہے ۔ ہمیں باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ آنے والے کچھ دنوں میں بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت دہلی میں صدر راج نافذ کرنے والی ہے ۔ دہلی میں اب جو صورتحال ہے ، اس میں لیفٹننٹ گورنر بھی ایک طرح سے حکومت چلاتے ہیں ۔ نوکر شاہی کا ہی کنٹرول ہے تو پھر دہلی میں صدر راج نافذ کیوں کیا جائے ؟ جب ایک چیف منسٹر کو جیل بھیجا جاسکتا ہے ، ایک وزیر کو استعفیٰ دینے کیلئے راغب کیا جاسکتا ہے تو حکومت کو برخواست کرنے کی بات تصور سے باہر بھی نہیں ہوسکتی ۔ ہم بس یہ کہہ رہے ہیں کہ دہلی میں ایک طرح سے حکومت تو لیفننٹ گورنر بھی چلا رہے ہیں تب ہی تو وہ وزراء کو اجلاس میں بلاتے ہیں، ان کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے ہیں اور آج کل بیان بھی دے رہے ہیں کہ وزراء اجلاس میں شرکت سے گریز کر رہے ہیں ۔ بیان یہ بھی دے دیتے ہیں کہ کجریوال کو استعفیٰ دینا ہوگا۔ ہم جیل سے حکومت چلنے نہیں دیں گے ۔ ان کے استعفے دینے کا مطالبہ کرنے والی درخواستیں کئی بار عدالتوں سے خارج ہوچکی ہیں ۔ عدالتوں نے اس سوال کو سننے کے قابل ہی نہیں سمجھا کہ جیل جانے کے بعد چیف منسٹر اروند کجریوال کو استعفیٰ دینا چاہئے ۔ کجریوال کی گرفتاری کے بعد وی کے سکسینہ نے کہا کہ میں دہلی کے لوگوں کو بھروسہ دلاسکتا ہوں کہ دہلی کی حکومت جیل سے نہیں چلے گی جبکہ دستور میں ایسی کوئی دفعہ ہی نہیں ہے جو یہ کہتی ہو کہ جیل ہونے پر چیف منسٹر کو استعفیٰ دینا ہوگا ۔ اسی وجہ سے دہلی ہائیکورٹ نے اب تک ایسی درخواستوں کو خارج کرچکی ہے جن میں استدعا کی گئی تھی کہ چونکہ کجریوال جیل میں ہیں اس لئے انہیں استعفیٰ دے دینا چاہئے ۔ عام آدمی پارٹی کے سابق رکن اسمبلی سندیپ کمار کی درخواست کو خارج کرتے ہوئے عدالت نے ان پر 50 ہزار روپئے کا جرمانہ بھی عائد کر دیا ۔ کیا اس کے بعد بھی لیفٹننٹ گورنر دہلی کی عوام کو بھروسہ دلانا چاہیں گے۔ لیفٹننٹ گورنر نے مرکزی وزارت داخلہ کو ایک مکتوب لکھتے ہوئے شکایت کی ہے کہ دہلی حکومت کے وزراء اجلاس میں نہیں آرہے ہیں جس میں وہ انہیں طلب کر رہے ہیں۔ آ تشی کہتی ہیں کہ اروند کجر یوال کی منتخبہ حکومت کو گرانے سازشیں کی جارہی ہیں اور اس کے کئی اشارے کچھ دنوں سے واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم کچھ دنوں سے دیکھ رہے ہیں کہ دہلی میں کسی بھی عہدیدار کی تعیناتی نہیں ہورہی ہے جو آئی اے ایس عہدیدار ہیں۔ ان کی تعیناتی مرکزی وزارت داخلہ کے تحت ہوتی ہے لیکن پچھلے کئی ماہ سے کسی بھی سینئر آئی اے ایس عہدیدار کی تعیناتی دہلی میں نہیں ہوئی اس کے علاوہ دہلی میں کئی شعبے خالی ہیں ، وہاں پر عہدیداروں کی تعیاتی نہیں کی گئی لیکن پھر بھی دہلی میں کسی عہدیدار کو تعینات نہیں کیا جارہا ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ لیفٹننٹ گورنر صاحب گزشتہ ایک ہفتہ سے مرکزی وزارت داخلہ کو بار بار بنا کسی وجہ کے دہلی حکومت کو لے کر مکتوب لکھ رہے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ وزراء اجلاس میں شرکت نہیں کرتے کہتے ہیںکہ مجھے بات کرنی ہے ، میں وزراء کو میٹنگ میںبلا رہا ہوں۔ یہ میٹنگ میں نہیں آرہے ہیں۔ یہ وہی لیفٹننٹ گورنر صاحب ہیں جو عدالت میں کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ جی یہ تبادلہ کا معاملہ ہے، اس سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے تو جب آپ عدالت میں کہتے ہیں کہ آپ کا آلودگی کے مسئلہ سے پانی کے مسئلہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے تو آپ مرکزی وزارت داخلہ کو اس کے بارے میں مکتوب کیوں لکھ رہے ہیں ۔ چوتھی بات یہ کہ دہلی حکومت کے عہدیداروں نے انتخابی ضابطہ اخلاق کا بہانہ بناکر کسی بھی میٹنگ میں انا بند کردیا ہے۔ چاہے وہ کتنے بھی اہم موضوع پر ہو۔ ایک بات ضرور ہے کہ مودی حکومت میں گورنر خود کو حکومت بھی سمجھنے لگے ہیں ۔ اس کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے سخت ریمارکس بھی ہیں۔ ٹاملناڈو کے گورنر آر این روی نے تو ایک وزیر کو حلف دلانے سے ہی انکارکر دیا لیکن جب سپریم کورٹ نے سخت پھٹکار لگائی جیسی رام دیو کو لگائی تھی تب جاکر گو رنر جی مانے اور وزیر کو حلف دلائی گئی ۔ آر این روی نے تو ایک وزیر کو برخواست بھی کردیا مگر بعد میں اپنا فیصلہ واپس بھی لیا تو مودی حکومت کے دس سال میں ریاستوںکی جو حالت ہوئی ہے وہ سیدھے صدر راج نافذ کرنے سے الگ ہوتے ہوئے بھی ایک طرح سے حکومت چلانے کی کوشش کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے ، وہاں راج بھون بی جے پی کی سرگرمیوں کا اڈہ بن گیا ہے ۔ ٹاملناڈو کے گورنر تو تین تین سال سے اسمبلی کے منظورہ بلز پر بیٹھے رہ گئے ۔ یہی وہ دستوری بحران ہے جس کی بات اپوزیشن قائدین کرتے ہیں اور گودی میڈیا کی اس بارے میں وزیراعظم نریندر مودی سے سوال نہیں کرتا ہے ۔ پنجاب کے گورنر بنواس لال پروہت نے چار بلوں کو منظوری نہیں دی ۔ یہ بھی کہہ دیا کہ 19 اور 20 جون 2023 کے جس حصہ میں جو بلز منظور ہوئے ہیں ، وہ کسی کام کے نہیں۔ جب حکومت پنجاب عدالت عظمی (سپریم کورٹ) نے گورنر کو پھٹکار لگائی اور کہا کہ آپ آگ سے کھیل رہے ہیں ۔ آپ حکومت کے پارلیمانی شکل کو ہی خطرہ میں ڈال رہے ہیں ۔ آپ اسپیکر کے حقوق اور فرائض میں دخل اندازی کر رہے ہیں ۔ اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا حق اسپیکر ریاستی اسمبلی کا ہے، گورنر نہیں کہہ سکتا کہ منظورہ بلز کسی کام کے نہیں یا ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور میں بلوں کو منظوری نہیں دوں گا۔ اسی وقت ٹاملناڈو کے گورنر کے معاملہ میں بھی سماعت چل رہی تھی ۔ سپریم کورٹ میں ہی جو 12 بلز کو منظوری نہیں دے رہے تھے، ایک بل تو ساڑھے تین سال ان کی منظوری کا انتظار کر رہا تھا ۔ وزیراعظم نریندر مودی کبھی بھی اس پر نہیں بولتے ، کبھی بھی اپنے گورنروں سے نہیں کہتے کہ انہیں دستوری امور میں اس طرح سے مداخلت نہیں کرنا چاہئے ۔ جس طرح سے کانگریس کے دور حکومت میں کیا جارہا ہے ۔ جب تک آپ ان کرتوتوں کو نہیں دیکھیں گے، نہیں جانیں گے تب تک آپ نہیں سمجھ سکتے کہ آتشی سنگھ کی پر یس کانفرنس کا کیا مطلب ہے ۔ آتشی نے کہا کہ باوثوق ذرائع سے معلومات حاصل ہوئیں ہیں۔ اگر آپ اس بات کو نظر انداز بھی کردیں اور دیکھیں کہ مودی حکومت میں اپوزیشن زیر اقتدار ریاستوں پر گورنر کس طرح کنڈلی مار کر بیٹھ گئے ہیں، تب آپ کو حیرانی نہیں ہوگی ۔ دہلی کے موجودہ حالات میں گورنر کو جس طرح میدان میں اتارا گیا ہے ، آپ کہہ سکتے ہیں کہ لیفٹننٹ گورنر حکومت میں حصہ دار بھی ہیں۔ یعنی یہاں نیم صدر راج نافذ لگتا ہے ۔ کیا کبھی آپ نے نیم صدر راج کے بارے میں سنا ہے ۔ غور سے دیکھئے دہلی میں نیم صدر راج ہی ہے۔ حکومت برخواست مت کرو ، حکومت کو چلنے سے روکو اور حکومت کو چلاتے رہو ۔ جہاں بھی اپوزیشن کی حکومت ہے گورنروں نے اسمبلی سے منظورہ بلوں کو منظوری دینے میں کئی ماہ سے کئی سال لگائے۔ اسمبلیوں نے پھر سے ان ہی بلوں کو پاس کیا تب بھی منظوری نہیں دی گئی ۔ اس طرح صدر راج نافذ کرنے کی بجائے مودی حکومت نے نیم صدر راج کا راستہ تلاش کرلیا جس پر سیاسی تجزیہ نگار کم بات کرتے ہیں جیسے ہندو سُکھ ہوتا ہے ویسے ہی یہ مودی حکومت کا سیاسی سُکھ ہے۔ دہلی میں جب سے اروند کجریوال کی حکومت بنی ہے مرکز نے کئی طرح سے حکومت میں مداخلت کی ہے ۔ اگر یہ بہتر سرکار ہوتی تو منتخبہ حکومت کو اور اختیارات دیتی لیکن چیف منسٹر پر لیفٹننٹ گورنر کو بٹھا دیا گیا ۔ ان کے اختیارات کی کٹوتی ہی ہوئی ۔ راج بھون کی مداخلت جب بڑھنے لگی تب حکومت دہلی سپریم کورٹ سے رجوع ہوگئی ۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا دہلی میں گورنر راج نافذ کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی کو کمزور کردیا جائے گا ؟