اپوزیشن کے خلاف کارروائی مودی کو شکست کا خوف

   

ارویش کوٹھاری
چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کی گرفتاری کے بعد بار بار یہ سوال گردش کررہا ہے کہ آیا وزیر اعظم نریندر مودی لوک سبھا انتخابات میں اپنی پارٹی بی جے پی کی کامیابی کے امکانات کو لیکر پریشان تو نہیں ؟ یہ سوال بھی بہت زیادہ گردش کررہا ہے کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی ہار کے ڈر سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر خوف و اشتعال سے کام تو نہیں لے رہے ہیں؟ شراب پالیسی اسکام میں چیف منسٹر دہلی کی گرفتاری نے بار بار ہونے والی اس بحث کو پھر سے بھڑکا دیا ہے کہ مودی جی پریشان اور خوف میں مبتلاء ہیں اور اسی وجہ سے وہ حزب اختلاف ( اپوزیشن ) کو ڈرانے دھمکانے اور اسے پریشان کرنے پر آمادہ ہیں۔ مودی کے ناقدین ان پر مطلق العنان اور آمریت پسند ہونے کے سنگین الزامات عائد کئے ہیں اب تو یہ ناقدین کئی ایسے اقوال کا حوالہ دے رہے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ مطلق العنان حکمراں فطری طور پر خوفزدہ رہتے ہیں اور انہیں ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ ان کے ظلم کا گھڑا کبھی بھی پھوٹ سکتا ہے۔ یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ کچھ لوگ اب بھی سمجھتے ہیں کہ مودی کی مایوسی ہی انہیں انتہائی اقدامات کرنے پر مجبور کرتی ہے جیسے کہ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کی گرفتاری اور ملک کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کانگریس کے بینک اکاؤنٹس کا منجمد کیا جانا، بی جے پی میں شامل ہونے اپوزیشن لیڈروں پر دباؤ ڈالنا ، ساتھ ہی راہول گاندھی اور مہوامؤترہ جیسے اپوزیشن کے اہم قائدین کی پارلیمانی رکنیت ختم کرنا ایسے انتہائی اقدامات ہیں جس سے مودی کے ڈر و خوف کا اندازہ ہوتا ہے اور ہاں یہ یقینی ہے کہ مودی سیاسی طور پر کمزور ہوگئے ہیں یا مایوس ہیں اس سے اپوزیشن کے اس پُرامید نظریہ کو تقویت ملتی ہے کہ خود مودی کو انتخابی میدان میں اپنی شکست کا امکان دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح کی سوچ اور اندازِ فکر اپوزیشن جماعتوں کو مودی اور بی جے پی پر کامیابی حاصل کرنے کا ایک معقول موقع فراہم کرتا ہے حالانکہ انڈیا اتحاد کی غیر منظم حالت اور مودی حکومت سے اس اتحاد کو راست یا بالراست طور پر دیئے جانے والے جھٹکے کے باوجود ان پر ( مودی ) پر کامیابی حاصل کرنے کا اچھا موقع ملتا ہے۔ حکومت کے حد سے زیادہ مہم جو اقدامات کو مودی کی کمزوری سے تعبیر کرنا خوش فہمی ہوگی اور اپوزیشن اور تجزیہ نگاروں کی بھیانک غلطی ہوگی۔ یہ لوگ ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ انتخابی پیش قیاسیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ مودی حکومت کی بے شمار غلطیوں و ناکامیوں کے باوجود اپوزیشن نے کوئی قابل ذکر احتجاج نہیں کیا اور سڑکوں پر نکل نہیں آئے( ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن نے مودی حکومت کی ناکامیوں اور عوام دشمن پالیسیوں و پروگرامس کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کئے بھی ہوں جیسا کہ کسانوں نے مرکزی حکومت کے خلاف زبردست احتجاج کیا لیکن گودی میڈیا نے ان احتجاجی مظاہروںکو پوری طرح نظرانداز کردیا۔ کئی ایسے مسائل ہیں جن کے ذریعہ اپوزیشن مودی حکومت کو شرمندہ کرسکتی تھی۔ مثال کے طور پر منی پور میں سنگین بدامنی، لداخ کی سرحدی صورتحال، ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے سابق سربراہ برج بھوشن سنگھ کی تائید و حمایت میں حکومت کا ڈٹے رہنا، اپوزیشن زیر اقتدار ریاستوں میں حکومتوں کو زوال سے دوچار کرنے کیلئے ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت یعنی ان کی وفاداریاں تبدیل کروانا اور اس عمل کو ایک جائز سیاسی عمل کے طور پر پیش کرنا، آمریت کو فروغ دینا، اپوزیشن قائدین، دانشوروں، ادیبوں و شعراء اور صحافیوں کے ساتھ ساتھ سماجی جہدکاروں اور ناقدین کے فون ٹیاپ کرنے ان کی حرکتوں پر نظر رکھنے اسرائیلی کمپنی کا تیار کردہ پیگاسس جاسوسی سافٹ ویر کا استعمال اور انتخابی بانڈ اسکیم کے ذریعہ چندہ کا دھندہ کرنا، یہ ایسی حرکتیں یا اقدامات ہیں جس کے ذریعہ اپوزیشن‘ مودی اور بی جے پی کو اخلاقی اور سیاسی طور پر پچھاڑ سکتی تھی۔ مودی اور ان کی حکومت کے غلط فیصلوں، اقدامات، پالیسیوں و پروگراموں کی فہرست میں الیکٹورل بانڈس اسکیم ایک نیا اضافہ ہے۔ اس کے ذریعہ ملک میں کرپشن اور بھتہ خوری کو ادارہ جاتی طور پر جائزبنایا گیا جو الیکٹورل بانڈ اسکیم سے عیاں ہے اور’ دیر آید درست آید ‘ کے مصداق پورے سات سال بعد اسے عدالت عظمیٰ نے ناجائز اور غیر دستوری قرار دیا۔ اپوزیشن‘ مودی حکومت کی مذکورہ غلطیوں کا زبردست فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کے سامنے اس کی ناکامیوں کو آشکار کرسکتی تھی لیکن وہ ایسا نہیں کرسکی اور اگر ایسا کرنے کی کوشش بھی کی گئی تب بھی گودی میڈیا مودی حکومت کی تائید و حمایت میں آگے آیا۔ مودی نے پرزور انداز میں کہا تھا کہ نہ کھاؤں گا نہ کھانے دو ںگا۔ لیکن اپوزیشن قائدین مودی کے اس دعویٰ کو بھی چیلنج کرنے سے قاصر رہی۔ یہ اور بات ہے کہ آبادی کا ایک قابل ذکر طبقہ مذہبی خطوط پر لوگوں کو تقسیم اور ترقی کے دعوؤں سے متاثر دکھائی دیتا ہے۔ منی پور میں جو کچھ ہوا جس طرح قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا، خواتین کی عصمتیں تارتار کی گئیں، انہیں برہنہ کرکے گھمایا گیا، یہی نہیں بلکہ خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی کرکے ان کی نظروں کے سامنے ہی ان کے بھائیوں، باپ اور شوہروں کو موت کی نیند سلادیا گیا۔ منی پور جلتا رہا، ملک و بیرون ملک لوگ منی پور میں خون خرابہ روکنے کا مطالبہ کرتے رہے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے زائد 79 دنوں تک ان شرمناک واقعات پر کچھ نہیں کیا جبکہ ساری دنیا چیخ اُٹھی کہ منی پور میں صرف خواتین اور لڑکیوں کو برہنہ نہیں کیا گیا بلکہ انسانیت ننگی کردی گئی۔ اپوزیشن کیلئے منی پور مودی حکومت کے خلاف ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا تھا لیکن منی پور قتل عام اور مودی کی پُراسرار خاموشی کو اپوزیشن جماعتیں کیش نہیں کرسکیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں عوام کو یہ بتاسکتی تھیں کہ منی پور جلتا رہا اور مودی خاموش رہے، بیرونی ممالک کے دوروں میں مصروف رہے۔ سب سے شرمناک بات یہ رہی کہ مودی جی اج تک بھی منی پور کا دورہ کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ ملک میں اس قدر زیادہ شرمناک واقعات پیش آئے اس کے باوجود آبادی کا ایک بہت بڑا طبقہ ( بھگت) مذہبی خطوط پر لوگوں کو تقسیم اور ترقی سے متعلق مودی اور ان کی حکومت کے دعوؤں سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں جو کچھ تباہی و بربادی مچائی گئی منی پور میں بے قصور انسانوں کا خون بہایا گیا، بدعنوانیوں و اسکامس کے بے شمار واقعات منظرِ عام پر آئے، لداخ میں چین کی دراندازی ( اس بارے میں خود بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی کا دعویٰ ہے کہ چین ہندوستان کے4060 مربع کلو میٹر سے زائد علاقہ میں دراندازی کرچکا ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی بھارت ماتا کے تحفظ میں ناکام ہوگئے ) کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کرنے والی خاتون پہلوانوں کے ساتھ جنسی ہراسانی جیسے شرمناک واقعات سے اس طبقہ کو کوئی تعلق ہی نہیں ہے، وہ بالکلیہ طور پر لاتعلق دکھائی دیتا ہے۔ مودی کے بھکتوں کو اس بات کی بھی کوئی فکر نہیں کہ وہ ( مودی ) پریس کانفرنس؍ صحافیوں کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن الیکٹورل بانڈس کے معاملہ میں عوام کو حرکت میں لانے ان کے ضمیر کو جھنجوڑنے میں ناکام رہی۔ انہیں یہ بتانے میں ناکام رہے کہ الیکٹورل بانڈس ( چندہ کا دھندہ ) کے ذریعہ صنعتی گھرانوں کی زبردست مدد کی گئی (اپوزیشن عوام کو یہ بتانے سے بھی قاصر رہی کہ مودی حکومت نے زائد از 14 لاکھ کروڑ روپئے کے قرض جو صنعتی گھرانوں پر عائد تھے انہیں معاف کردیا لیکن کسانوں کے قرض معاف کرنے کی اسے زحمت نہیں ہوئی ) جہاں تک الیکٹورل بانڈس کا سوال ہے کچھ سیاسی تجزیہ نگار اور ماہرین اقتصادیات اسے آزادی کے بعد ہندوستان میں سب سے بڑا اسکام اور بھتہ خوری کا ایک ریاکٹ تصور کرتے ہیں۔
کچھ ناقدین سمجھتے ہیں کہ حکومت کو جو مسائل درپیش ہیں ان مسائل سے اس میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوسکتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ اپوزیشن کے خلاف سخت سے سخت اقدامات کررہے ہیں جو ایک مضبوط انتخابی جمہوریت کے وجود اور اس کی بقاء کیلئے ایک چیلنج ہے لیکن گذّشتہ 20 برسوں کے مودی کے ٹریک ریکارڈکا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے سخت اقدامات الیکشن ہارنے کے خوف کی بجائے بیانیئے کو تیار کرنے اور اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے ہیں۔