اڈوانی کو مودی کا انعام

   

اجئے آشیرواد
بی جے پی کے ضعیف العمر لیڈر ایل کے اڈوانی کا نام پھر چرچا میں ہے ۔ ہر مرتبہ وہ کسی نہ کسی تنازعہ کے باعث خبروں میں رہے ۔ رام رتھ یاترا کے نام پر انہوں نے میڈیا کے ذریعہ خود کو سنگھ پریوار کا ایک طاقتور اور بی جے پی کا کرتا دھرتا ثابت کیا ان کی رام رتھ یاترا نے سارے ملک کو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھونک دیا جہاں جہاں سے ان کی یاترا گذری بے شمار ہندوستانی اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے یہ سب کچھ رام کے نام پر مندر کے نام پر کیا گیا اور بھولے بھالے ہندوؤں کو بے وقوف بنایا گیا ۔ اگر دیکھا جائے تو ایل کے اڈوانی ملک میں مذہبی خطوط پر لوگوں کی تقسیم اور ملک کو مذہبی پولررائزیشن کی طرف لے جانے میں بے مثال کردار ادا کیا اور اس کردار کیلئے ان کے سب سے بڑے چیلے اور جانشین نریندر مودی نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ انہیں ایک ایسے وقت ملک کا اعلی ترین شہری اعزاز عطا کیا ۔ جبکہ حال ہی میں رام مندر کی افتتاحی تقریب یا پران پرتشٹھا کا انعقاد عمل میں آیا ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ایل کے اڈوانی نے بی جے پی کے صدر کی حیثیت سے سب سے پہلی مرتبہ پالم پور قومی عاملہ کے اجلاس میں ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کو پارٹی کے ایجنڈہ میں شامل کیا تھا ۔ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں پہلے تو ان کے بارے میں کہا گیا کہ انہیں دعوت تو دی جارہی ہے لیکن ان کی عمر کو دیکھتے ہوئے یہ درخواست بھی کی گئی تھی کہ وہ پران پرتشٹھا میں شرکت نہ کریں اس کا صاف صاف مطلب یہ تھا کہ وہ اس تقریب کے مدعو اور غیر مدعودونوں تھے ۔ آج اگر ہم اپنے ملک کے حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ مہاتما گاندھی، پنڈت جو اہر لال نہرو کا انڈیا نہیں بلکہ غیریقینی ، خوف اور عدم تحفظ کے وسیع جذبات کی علامت بن چکا نیو انڈیا ہے اور یہ وہی ہندوستان ( نیو انڈیا ) ہے جس کی بنیاد کسی اور نے نہیں خود اڈوانی نے ڈالی تھی ۔ اپنی رام رتھ یاترا کے ذریعہ اس یاترا نے جو فرقہ پرستی کا زہر پھیلایا حالات کو مکدر کیا ۔ اس بارے میں سارا ہندوستان جانتا ہے ایک بات ضرور ہیکہ چند دہائیوں سے بھارت رتن جیسا باوقار اور اعلی ترین شہری اعزاز دراصل سیاسی پیغام دینے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے ۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ماضی میں ملک کے ممتاز سائنسدانوں ، سماجی مصلحین ، اپنی موسیقی کے ذریعہ عوام کے دل جیتنے والے موسیقاروں ، کھلاڑیوں اور مختلف فنون کے ماہرین و مجاہدین آزادی کو یہ اعزاز دیا جاتا رہا ہے اس کے علاوہ جو پارٹی مرکز میں برسراقتدار رہتی ہے اکثر اپنے نظریہ کے ماننے اور اس نظریہ پر چلنے والے مفکرین کو ہی اس اعزاز کیلئے منتخب کرتی ہے ۔ اڈوانی کے بارے میں یہ بھی بالکل درست ہیکہ انہوں نے بی جے پی کو مقبول عام بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا خواہ یہ ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہوا ہو ، آج بی جے پی جس ایجنڈہ پر عمل پیرا ہے اس ایجنڈہ کے دینے والوں میں ایل کے اڈوانی سرفہرست ہیں یہ اور بات ہیکہ بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے والے اڈوانی کے ساتھ سنگھ پریوار کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس اور خود نریندر مودی نے ایک مرحلہ پر بہت بُرا سلوک کیا ایک طرح سے انہیں نظرانداز کردیا گیا ۔ اڈوانی نے پالم پور میں رام مندر کے عہد کو اختیار کرنے سے لیکر اپنی ملک گیر رام رتھ یاترا کے ذریعہ ہی اکثریتی فرقہ واریت پر مبنی سیاست کو آگے بڑھانے تک بی جے پی کے ایک اور بڑے لیڈر و سابق وزیراعظم ابل بہاری واجپائی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر پارٹی کی تعمیر میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا لیکن ان کی خدمات کا صلہ آر ایس ایس کی جانب سے نظرانداز کئے جانے کی شکل میں دیا ۔ اڈوانی کے بارے میں یہ بتانا بھی ضروری ہیکہ وہ بی جے پی کے سب سے زیادہ عرصہ تک صدر رہنے کا اعزاز رکھتے ہیں ۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ اٹل بہاری واجپائی جس وقت عہدہ وزارت عظمی پر فائز تھے وہ اڈوانی کو نائب وزیراعظم بنانے کے حق میں نہیں تھے لیکن آر ایس ایس نے واجپائی کو اس بات کیلئے مجبور کیا کہ وہ اڈوانی کو نائب وزیراعظم بنائیں ۔