اکثرمیڈیا مسلمانوں کوبدنام کرنے کی مجرمانہ سازش میں ملوث ہے اور سپریم کورٹ کی گائیڈلائن کی دھجیاں اڑارہی ہے :گلزاراحمداعظمی

,

   

نئی دہلی: 8؍اپریل(پریس ریلیز) ملک کے بے لگام ٹی وی چینلوں پر قانونی لگام لگانے کی پہل جمعیۃعلماء ہند نے کردی گزشتہ روز جمعیۃعلماء ہند کی امدادی قانونی کمیٹی کی طرف سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے جسے سماعت کے لئے منظورکرلیا گیا ہے اس عرضی میں کہا گیا ہے کہ میڈیا مسلمانوں اور تبلیغی مرکز کو لیکر انتہائی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کررہا ہے اس کی متعصبانہ رپورٹنگ کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے ۔ اوراس کے کوریج پر روک لگانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے اس کے علاوہ شوشل میڈیا پر فرضی خبریں پھیلانے پر کارروائی کے لئے حکم دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں میڈیا اداروں کے ذریعہ مسلمانوں اور تبلیغی جماعت کو لے کر ہورہی رپورٹنگ سے فرقہ واریت پھیل رہی ہے ۔ اپنی عرضی میں جمعیۃ علمائے ہند نے میڈیا کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔تبلیغی جماعت کے خلاف ہورہے میڈیا ٹرائل پر ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے پٹیشن دائر کی ہے ۔عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نظام الدین مرکز کو میڈیا فرقہ وارانہ رخ دے رہا ہے ، درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تبلیغی جماعت سے متعلق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹ نے‘‘پوری مسلم قوم کو نشانہ بنایا۔ اور مسلمانوں کی توہین کی گئی اور ان کی دل آزاری کی گئی۔

 درخواست میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کے ذریعے جو رویہ اختیار کیا گیا اس سے مسلمانوں کی آزادی اور ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے ” جو دستور آئین میں دیئے گئے رائٹ ٹو لائف کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ بیشتر اطلاعات میں ”کورونا جہاد”، ”کورونا دہشت گردی” یا ”اسلامی بنیاد پرستی” جیسے جملے کا استعمال کرتے ہوئے غلط بیانی کی گئی ہے۔ اس پٹیشن میں ”متعدد سوشل میڈیا پوسٹس” کو بھی درج کیا گیا ہے جس میں ”غلط طور پر کوویڈ 19 کو پھیلانے کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے”۔ اس کے ساتھ ہی جھوٹی اور جعلی ویڈیوز کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

 عرضداشت میں کہا گیا ہے کہ نظام الدین واقعے کی کوریج کرتے ہوئے ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔جس نے مسلمانوں کے معاملے میں دستور ہند کی دفعہ آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔عرضداشت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعے 31 مارچ کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس میں ”میڈیا کو ہدایت دی گئی تھی میڈیا ذمہ داری کے ساتھ رپورٹنگ کریں اور غیر تصدیق شدہ خبریں شائع اور نشر نہ کریں۔ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدا رشدمدنی نے حالیہ دنوں میں میڈیا بالخصوص الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف ہورہی مسلسل منفی رپورٹنگ پر اپنے گہرے دکھ کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہماری تمام تردرخواستوں اور مطالبوں کے باوجود ٹی وی چینلوں نے مسلمانوں کے خلاف جھوٹ اور گمراہ کن پروپیگنڈے کا سلسلہ بند نہیں کیا اس کو لیکر ہم حکومت سے بھی یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ نفرت بونے والے اور مسلمانوں کی شبیہ کو داغدارکرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے ، مگر افسوس ہمارے مطالبہ کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی ہم اس سے پہلے بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ میڈیا کا ایک بڑاحلقہ اپنی رپورٹنگ کے ذریعہ معاشرے میں جو زہر بورہا ہے وہ کوروناوائرس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے ،انہوں نے یہ بھی کہا کہ حال ہی میں تبلیغی مرکز کو لیکر میڈیا نے تو اخلاق وقانون کی تمام حدیں توڑدی ہیں اب اس کی وجہ سے اکثریت کے ذہنوں میں یہ گرہ مضبوط ہوگئی ہے کہ کورونا وائرس مسلمانوں کے ذریعہ پھیلائی ہوئی کوئی بیماری ہے، انہوں نے سوال کیا کہ اگر لمحہ بھرکے لئے بھی یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ وائرس ملک میں جماعت کے لوگوں سے پھیلا تو کیا چین ، امریکہ ، اٹلی اور برطانیہ سمیت دوسرے ممالک میں بھی اس وباکو مسلمانوں نے ہی پھیلایا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یہ کس قدرمضحکہ خیز الزام ہے کہ مگر اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ لوگ اس طرح کی چیزوں کو سچ سمجھ لیتے ہیں درحقیقت اس کرونولوجی یعنی کہ ترتیب کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، یہ ٹی وی چینل ازخودایسا نہیں کررہے ہیں بلکہ اس کے پیچھے بعض مخصوص ذہن کے لوگوں کا دماغ کام کررہا ہے اور جن کی ہدایت پرہی یہ سب کچھ ہورہا ہے انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے 6سال سے میڈیا میں مسلم اقلیت کے بارے میں منفی رپورٹنگ کا مذموم سلسلہ جاری ہے مگر حکومت نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی جھوٹی خبروں اور فیک ویڈیوز کے سہارے مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے والوں کو انتباہ ہی کیا گیا ، تبلیغی مرکز کے معاملہ میں بھی یہ ہی ہوا جھوٹی خبریں چلائی گئیں فیک ویڈیوز دیکھائے گئے جن کی تردید بھی اب بعض چینل کررہے ہیں مگر اس کے بعد بھی کوئی ان ٹی وی چینلوں سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ آپ نے ایساکیوں کیا ؟ حکومت اور وزیر نشرواطلاعات کے ذمہ داران کویہ کہنا چاہئے تھا کہ اس طرح کے معاملہ کو مذہبی رنگ نہیں دیا جائے اور جو لوگ ایسا کررہے ہیں غلط کررہے ہیں لیکن افسوس ایسانہیں ہوا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ سب کچھ سرکاری سرپرستی میں ہورہا ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ غیر منظم لاک ڈاؤن سے سرکارکی خامیاں اورناکامیاں سامنے آنے لگی تھی جن پر پردہ ڈالنے کے لئے شاید اس وباکو مذہبی رنگ دیا جانا ضروری ہوگیا تھا یہ حربہ کامیاب رہا ہے اور مسلمان اس پورے معاملہ میں ویلن بن چکاہے ، انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ کے دوران انسانی ہمدردی کی جو فضاملک میں پید اہوئی تھی اور جس طرح لوگ مذہب سے اوپر اٹھ کر مجبوراورضرورت مندوں کی مددکررہے تھے اس طرح کے پروپیگنڈے سے اسے سخت دھچکہ لگاہے ، مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تفریق کے واقعات میں اچانک تیزی آگئی ہے یہاں تک کہ ایک مسلم حاملہ خاتون کو اسپتال میں داخل کرنے سے ہی منع کردیا گیا اترپردیش جیسی ریاست میں مسلمانوں کے خلاف قانون کی آڑمیں امتیازی سلوک کا سلسلہ تو عرصہ سے جاری ہے مگر اب اس میں مزید شدت آگئی ہے یہاں تک کہ مسلمانوں کو تبلیغی جماعت سے جوڑکر ان پر این ایس کے تحت کاروائی ہورہی ہے، ایسے میں ان زہر اگلنے والے بے لگام ٹی وی چینلوں کے خلاف قانونی کارروائی ہمارے لئے ناگزیرہوگئی تھی،قانونی کارروائی کی یہ پہل جمعیۃعلماء ہند کی قانونی امدادکمیٹی کے سربراہ گلزاراحمد اعظمی کی کوششوں سے عمل میں آئی ہمیں یقین ہے کہ اس پٹیشن میں اٹھائے گئے اہم سوالات اورنکتوںپر عدالت باریک بینی سے غورکرکے ان چینلوں کے خلاف رہنماہدایات جاری کرے گی ۔، پٹیشن داخل کرنے کے بعد گلزاراحمد اعظمی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی گائیڈلائن جس میں میڈیا ہاؤس کو متنبہ کیا تھا کہ وہ نیوز دیکھانے سے قبل اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں اورایسی کوئی بھی نیوز نہ دیکھائیں جس سے کسی ایک فرقہ کی بدنامی ہوتی ہواور دوفرقہ کے درمیان نفرت پیداہو۔ لیکن افسوس مسلمانوں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ نہیں رک رہا ہے ۔