اگلے برس فاقہ کشی پہنچے گی نقطہ عروج پر

   

سیاست فیچر
کووڈ۔19 سے لیکر روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی مسلط کردہ یوکرین جنگ اور اس جنگ سے لیکر ماحولیاتی تبدیلی ، ایسا لگتا ہے کہ تمام آفات و پریشانیاں دنیا کو ایک بھوکی دنیا میں تبدیل کررہے ہیں ۔ اس طرح کی آفات اور جنگ و جدال کے نتیجہ میں کروڑہا لوگ بھوک کا شکار ہورہے ہیں ۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر بھوک و افلاس کے متاثرین کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور خاص طورپر لوگ ناقص غذا کے مضر اثرات کا شکار ہوتے جارہے ہیں ۔ آفات سماوی ، بیماریوں اور جنگوں کے نتیجہ میں عالمی ترقی کی رفتار سست روی کا شکار ہوئی ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو آج دنیا میں جتنی بھوک اور بھوکے ہیں ماضی میں نہیں تھے ۔ فی الوقت اس معاملہ میں دنیا ایک بدترین صورتحال سے دوچار ہے ۔ ماہرین، دانشوروں اور محققین نے بہت پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ دنیا پر قحط کا خطرناک سایہ منڈلا رہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہہ تغذیہ کا عالمی نظام ہے کیونکہ یہ نظام بہت چیزوں سے مربوط ہے اور ماضی کی بہ نسبت موجودہ حالات میں بہت ہی پیچیدہ بھی ہے ۔ یہ ایسا نظام ہے جو بین الاقوامی انحصار کی کئی پرتوں پر تعمیر کیا گیا ہے ۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یوروپ میں ایک جنگ ، صومالیہ میں قحط و خشک سالی کی صورتحال بد سے بدتر کرسکتی ہے ۔
اس بارے میں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ صومالیہ ایک ایسا ملک ہے جو روٹی کیلئے زیادہ تر گیہوں درآمد کرتا ہے اور جب یوکرینی گیہوں کی برآمد متاثر ہوئی تب راتوں رات صومالیہ میں روٹی کی سربراہی شدید متاثر ہوئی لیکن نظام تغذیہ کو جو مجہول ہوچکا ہے بہتر بنانے کی بجائے امریکہ کی قیادت میں عالمی سطح پر بھوک کے خاتمہ کیلئے جو عالمی کوششیں کی جارہی ہیں ان سے عالمی سطح پر ناقص غذا کا مسئلہ مزید سنگین ہوتا جارہا ہے ۔ خاص طورپر آفریقی ملکوں میں یہ مسئلہ سنگین ہورہا ہے۔ اس نظام کو عالمی بناتے ہوئے پچھلے ہفتہ امریکی صدر جوبائیڈن نے واشنگٹن میں جمع افریقی لیڈران سے کہا کہ امریکہ تمام افریقی ملکوں کے ساتھ ہے لیکن امریکہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ صحیح سمت میں سب کے ساتھ رہے خاص طورپر جب بات غذا کی آتی ہو ۔
جہاں تک تغذیہ سے متعلق عالمی نظام کا سوال ہے دنیا بھر میں کورونا وائرس کی عالمی وباء پھوٹ پڑنے کے نتیجہ میں لاک ڈاؤن نافذ کئے گئے جس کے نتیجہ میں عالمی معیشت سست روی کا شکار ہوئی ، فوڈ سسٹم ورکروں کو بیماریاں لاحق ہوئیں خاص طورپر فیکٹری ورکروں اور نقل مکانی کرنے والے مزدور بیماریوں میں مبتلا ہوئے ۔ حد تو یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ، افراط زر ( مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ اور یوکرین جنگ ) نے اس وباء میں مزید اضافہ کیا۔
مثال کے طورپر مشرق وسطی اور شمالی افریقہ (MENA) علاقہ کو لیجئے جن میں غذائی لحاظ سے دنیا کے انتہائی غیرمحفوظ ممالک جیسے شام ( اس ملک کو گلوبل فوڈ سکیورٹی انڈکس میں 113 واں مقام حاصل ہے ) اور یمن (11 1 ویں مقام پر ہے) یہاں تک کہ کووڈ 19 عالمی وباء اور یوکرین جنگ سے پہلے ہی اس علاقہ میں رہنے والے 55 ملین لوگ ناقص غذا کا شکار تھے ۔ جیسے ہی کووڈ۔ 19 کی عالمی وباء اور یوکرین جنگ نے سپلائی چین کو متاثر کیا اشیاء ماتحیاج ( اناج) کی فراہمی میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔
روایتی طورپر اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کے ساتھ بین الاقوامی سرکاری اداروں ( این جی اوز ) نے انسانی امداد کی اپیلوں اور مہم کے ذریعہ غذائی بحران پر قابو پانے کی کوششیں کی ۔ ان کوششوں کا مقصد متاثرہ آبادی کی ضروریات کی فوری تکمیل تھا لیکن عالمی قحط جس کی سمت ہم تیزی سے بڑھ رہے ہیں صرف انسانی امداد کے ذریعہ حل نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے ایک نئے طریقہ سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور وہ ایک سہ رخی گٹھ جوڑ کا طریقہ ہے اور اس طریقہ یا عمل کی تعریف سنٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹیڈیز (CSIS) نے کرتے ہوئے بتایا کہ مربوط ترقی تعمیر امن کیلئے مجموعی و مشترکہ مہارت کا استعمال ، تنازعات کی شدت میں کمی اور انسانی امداد کے شعبہ کے بشمول دیگر شعبوں کے مشترکہ چیلنج سے موثر طورپر نمٹنے کیلئے اس مہارت کو استعمال کرنا ہے ۔ اقوام متحدہ کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ یوکرین ۔ روس جنگ یوروپی ممالک پر خطرناک اثرات مرتب کرے گی ۔ اس معاملہ میں اقوام متحدہ کی ایجنسیاں ، بین الاقوامی حکومتیں ، امدادی تنظیمیں اور عطیہ دہندگان اپنی مشترکہ کاوشوں کے ذریعہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔