اہمیت تعلیم برائے خواتین

   

محمد عامر نظامی

انسان جب تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے تو واقعی وہ انسان ہوتا ہے۔ خداوند قدوس نے دنیا کو آباد رکھنے کے لئے حضرت آدم ؑکے ساتھ حضرت حواءؑ کو بھی پیدا فرمایا اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک تناسب سے مرد و خواتین کی تخلیق ہوتی رہی، مکلف بن جانے کے بعد دونوں کی ذمہ داریاں الگ الگ طے کردی گئیں، مردوں کو بطور خاص خارجی معاملات کا نگراں بنایاگیا جب کہ عورتوں کو اندرون خانہ معاملات کا ذمہ دار بنایاگیا۔ اور چوں کہ عورت کے کئی رنگ ہیں، کبھی وہ رحمت کی شکل میں بیٹی کا روپ لیے ہوتی ہے، تو کبھی پیاری بہن کبھی کسی کی شریک حیات ہوتی ہے، تو کبھی ماں کی شکل میں شجر سایہ دار اس لیے اس کی ذمہ داری کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے اور اس کے لیے زیور تعلیم کی قیمت، سونے چاندی سے بھی بڑھ جاتی ہے، چوں کہ اسلام سے قبل عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی جاتی تھی، اس لیے آپ ﷺنے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دلائی ۔ آپ ؐکا ارشاد ہے: ’’جو شخص اپنی بیٹی کی خوب اچھی طرح تعلیم و تربیت کرے اور اس پر دل کھول کر خرچ کرے تو (بیٹی) اس کے لئے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہوگی‘‘ ۔ (المعجم الكبير للطبراني )
امام بخاری نے تعلیم نسواں کے سلسلے میں ایک پورا باپ ہی قائم کیا ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے‘‘۔ اتنا علم تو سبھی پر فرض ہوا کہ حلال و حرام ، پاکی ناپاکی ، جائز ناجائز کوجانا جاسکے ۔عہد رسالت میں عورتوں کی دینی تعلیم کا باقاعدہ انتظام تھا۔ صحابیات ؓ کے خصوصی اجتماع میں رسول الله ﷺ تشریف لے جاکر تلقین و وعظ فرمایا کرتے تھے۔ صحابہ کرام ؓکی طرح صحابياتؓ بھی محدثہ، فقیہ، عالمہ، فاضلہ مفتیہ اور کاتب تھیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓفقیہ الامت ہیں۔ ام المومنین اُم سلمہ ؓفقيہہ و مفتیہ تھیں۔ حضرت حفصہ ؓلکھنا پڑھنا دونوں جانتی تھیں۔ حضرت خنساء ؓشاعرہ تھیں۔
اسی طرح پہلی اور دوسری صدی ہجری میں پورے عالم اسلام میں احادیث کی روایت و تدوین کا سلسلہ شروع ہوا جن خواتین کے پاس مجموعے تھے اُن سے وہ حاصل کئے گئے۔ حدیث کی تحصیل کیلئے محدثین و رواة کی طرح محدثات و راویات نے بھی گھر بار چھوڑکر دور دراز ملکوں کا سفر کیا۔ اور ان محدثات وطالبات کیلئے محدثین و شیوخ کی درس گاہوں میں مخصوص جگہیں رہا کرتی تھیں اس طرح ان محدثات میں سے بہت سی ، حافظات قاریات اور مفسرات تھیں ۔ وعظ و تذکیر، رشدو ہدایت. تزکیہ نفس شعر وادب خطاطی و کتاب وانشاء اذکار کی تعلیم و تربیت میں بھی بہت زیادہ نمایاں رہیں ۔ صحابیات اور تابعیات میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے قرآن وحدیث کے علوم میں بڑا مقام پایا ۔
اوراس کی نشر و اشاعت میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا
تعلیم کے ان تمام فضائل کو دیکھتے ہوئے ہوئے جب ہم دور حاضر کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں ہیں تو ہمیں معاملہ برعکس نظر آتا ہے لہذا ہماری ذمہ داری نے کہ ہم خواتین کو یہ بتاءیں کہ ماضی میں خواتین نے کتنی قربانیاں دیں اور اسلام کی کیسی خدمت کی اور دین اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے کتنا بہترین کردار ادا کیا
حضرت شیخ الاسلام عارف باالله الحافظ محمد انوار الله فاروقی علیہ الرحمہ بانی جامعہ نظامیہ کی سیرت پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ کے درس تصوف میں خواتین کے لیے بھی پردے کا انتظام ہوا کرتا تھا
ہی ہی نجیبہ بیگم صاحبہ ہمیشہ فتوحات مکیہ کے حلقہ درس سے استفادہ کے لیے قریب کے ایک کمرے میں بیٹھتی اور سنتیں تھیں ( بحوالہ مطلع )
ان تمام نظائر اور مثالوں کو دیکھتے ہوئے موجودہ دور میں مرد حضرات کا خواتین کے حصول تعلیم میں . دگار بننا وقت کا تقاضہ ہے کیونکہ حدود شریعت میں رہ کر کتنی بھی اعلی تعلیم حاصل کرنے کو اسلام نے منع نہیں کیا
ماضی کی خواتین صحابیات اور تابعیات کی صلاحیتوں کو اپنا کر ان صلاحیتوں کی مدد سے ایک لڑکی ایک نسل کو ایک خاندان کو گمراہ ہونے سے بچا سکتی ہے اور معاشرے کے لئے بہترین کردار ادا کرسکتی ہے
تعجب ہے کہ تعلیم و ترقی میں پیچھے ہے۔
وہ قوم جس کا آغاز ہی اقرء سے ہوا ہے۔
از محمد عامر نظامی
كامل الفقہ جامعہ نظامیہ
عربی لیکچرار ودیا دینی گرلز کالج