ایئر لائنس کے بغیر اکیسویں صدی کا تصور ادھورا

   

محمد مصطفی علی سروری
جنوری 2020ء میں دنیا کو آہستہ آہستہ پتہ چل رہا تھا کہ چین سے آنے والا ایک وائرس بڑی تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔ چین کے شہر ووہان کو اس وائرس کے پھیلائو کا اصل مرکز مانا جارہا تھا اور وہ لوگ جو دنیا بھر سے تعلیم اور تجارت کے لیے ووہان میں تھے وہ جلد سے جلد اپنے ملکوں کو واپس جانا چاہتے تھے۔ بہت سارے ہندوستانی بھی ووہان میں ایسے تھے جو اس وباء سے محفوظ رہنے کے لیے واپس اپنے وطن جانا چاہتے تھے لیکن وائرس کے پھیلائو کو دیکھتے ہوئے ووہان میں لاک ڈائون لگادیا گیا اور وہاں سے ساری ریگولر فلائٹس بند کردی گئی تھیں لیکن ہندوستانیوں کو ووہان سے بحفاظت باہر نکال لانے کے لیے حکومت ہند نے خصوصی فلائٹس کا انتظام کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایمرجنسی حالات میں کام کرنے کے لیے صرف سرکاری ایئر لائنس ایر انڈیا کی ہی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ اس طرح انڈیا کی حکومت نے ایر انڈیا کو ووہان سے خصوصی فلائٹس چلانے کا حکم دیا۔ ایر انڈیا نے طئے کیا کہ وہ 31؍ جنوری 2020ء بروز جمعہ اپنا جمبو جیٹ طیارہ ووہان بھیجے گا جو وہاں سے ہندوستانیوں کو وطن واپس لانے کا کام شروع کرے گا۔

لیکن سب کو معلوم تھا کہ یہ معمول کی فلائٹ نہیں ہے اور جہاں فلائٹ لے جانی ہے وہیں سے ایک وائرس پھیل رہا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب کرونا وائرس کے متعلق ہندوستان کیا پوری دنیا کو صحیح معلوم نہیں تھا۔ ایک بات سب کو معلوم تھی کہ یہ ہنگامی حالات ہیں اور چونکہ نوعیت سنگین تھی اس لیے ایر انڈیا کی فلائٹ کے ساتھ ڈاکٹرس کی ایک ٹیم کو بھی بھیجنا طئے کیا گیا ۔ چونکہ سرکاری مشن تھا اس لیے ڈاکٹرس بھی سرکاری دواخانے سے منتخب کیے گئے۔ دہلی کے رام منوہر لوہیا ہاسپٹل کے ڈاکٹرس کی ٹیم تشکیل دی گئی۔ ان کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ طیارے میں سوار ہونے والے مسافرین کی ایئر پورٹ پر چیکنگ کریں تاکہ وائرس سے متاثرہ کوئی فرد مسافرین میں شامل نہ ہو۔ڈاکٹرس اور طبی عملہ کے بعد اگلا مرحلہ ایر انڈیا کی فلائٹ کے پائلٹ کا انتخاب تھا چونکہ یہ ریگولر فلائٹ نہیں بلکہ ہنگامی نوعیت کی فلائٹ تھی اور ساتھ ہی جمبو جیٹ طیارہ تھا اس لیے پائلٹ بھی تجربہ کار ہونا تھا۔ لیکن یکے بعد دیگر 9 پائلٹس نے مختلف وجوہات بتلاکر ووہان جانے سے منع کردیا۔ اب ایئر انڈیا نے ایک دوسرے پائلٹ کو طلب کرنے کا ارادہ کیا جو کہ چھٹی پر اپنے شہر گئے ہوئے تھے۔ جی ہاں قارئین ایر انڈیا نے جب سید حامد رضا کو فون کر کے دریافت کیا کہ کیا وہ ایک ایمرجنسی فلائٹ کے لیے ووہان جانے تیار ہیں تو انہوں نے حامی بھرلی۔
کیپٹن رضا جنوری 2020کے آخری ہفتے میں چھٹی پر اپنے شہر حیدرآباد میں تھے۔ ان کے دہلی آنے کے لیے ٹکٹس فراہم کیے گئے۔ پھر ان کے پاسپورٹ پر چین کا ویزا اسٹامپ کروایا گیا۔ یوں ایر انڈیا کی 70 سال کی تاریخ میں سید حامد رضا کا نام اس حوالے سے ہمیشہ کے لیے درج ہوگیاکہ ووہان سے ہندوستانیوں کے تخلیہ کے لیے چلائی گئی پہلی فلائٹ کے کیپٹن وہی تھے۔

اخبار بزنس لائنس نے 14؍ فروری 2020ء کو شائع اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ حکومت چین نے ایر انڈیا کو واضح کردیا کہ ان کی فلائٹ رات میں 8 بجے کے بعد (مقامی وقت) ہی ووہان میں ایئر پورٹ پر لینڈ کرسکتی ہے چونکہ ان دنوں ووہان شہر میں لاک ڈائون چل رہا تھا اس لیے ایئرپورٹ بھی بند تھا۔ ایر انڈیا کو اپنی پرواز کے لیے درکار سارے انتظامات خود اپنے طور پر کرنے تھے۔اس لیے ایئر انڈیا نے اپنی فلائٹ میں انجینئرس اور دیگر اسٹاف کو بھی انڈیا سے لے جانا طئے کیا۔ ساڑھے چار گھنٹے کی فلائٹ جمبو جیٹ (747) نے صرف 38 لوگوں کے ساتھ طئے کی۔ یہ طیارہ دہلی سے نکلا اور بانگلہ دیش میانمار کی فضائی حدود سے ہوتے ہوئے ووہان پہنچا۔ جس وقت ایئر انڈیا کے جمبو جیٹ نے ووہان ایئرپورٹ پر لینڈ کیا تو اس وقت کیپٹن رضا کے مطابق صرف ایرپورٹ ہی نہیں پورا شہر
(Ghost City)
کا منظر پیش کر رہا تھا۔ پورے شہر میں چند ایک ہی لائٹس جل رہی تھیں۔ یہاں تک کہ ایئرپورٹ پر بھی چند ایک ہی لائٹس جل رہی تھیں۔

کیپٹن سید حامد رضا نے جو ان دنوں شہر حیدرآباد میں ہی ہیں ایک انٹرویو کے دوران بتلایا کہ انہیں بھی ووہان پہنچنے کے بعد احساس ہوا کہ واقعی وہاں کے حالات خراب ہیں۔ اسی لیے تو (11) ملین آبادی کا پورا شہر خاموش تھا۔ پائلٹ اور کیبن کے عملے نے پہلے ہی طئے کر رکھا تھا کہ وہ طیارے کے باہر نہیں نکلیں گے اور جب ایئر انڈیا کا طیارہ لینڈ کیا اس کے بعد ہی ان ہندوستانیوں کو ایئر پورٹ لانے کا سفر شروع ہوا جنہیں انڈیا واپس لانا تھا۔لیکن اصل حقیقت یہ تھی جن ہندوستانیوں کو جمبو جیٹ کے ذریعہ واپس لانا تھا وہ لوگ ووہان ایئر پورٹ سے 400 کیلومیٹر دور تھے۔ اب ایئر انڈیا کے طیارے کو ایئر پورٹ پر انتظار کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ نہیں تھا۔ کیپٹن رضا کو ووہان ایئرپورٹ پر ساڑھے چھ گھنٹے انتظار کرنا پرا تب کہیں جاکر ہندوستانی طیارہ میں سوار ہوئے اور واپسی کا سفر شروع ہوا۔کیپٹن حامد رضا کے مطابق ووہان سے ہندوستانیوں کو واپس لانے کا یہ تجربہ بڑا دلچسپ رہا۔ خاص طور پر میڈیا نے اس کا خوب کوریج کیا اور اس کوریج کو دیکھنے کے بعد وہ پائیلٹس بھی کیپٹن سے رشک کرنے لگے جنہوں نے ایئر انڈیا کے اس آفر کو منع کردیا تھا۔
کورونا وائرس کو پچھلے ایک برس کے دوران کووڈ 19 کا نام بھی دے دیا گیا۔ امریکہ، یوروپ، ہندوستان اور تو اور انتارتیکا میں بھی کرونا وائرس پھیل کر اپنی تباہ کاریاں پھیلا رہا ہے۔ اس سارے پس منظر میں جس انڈسٹری پر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اثر پڑا وہ ایئر لائنس انڈسٹری ہی ہے۔ کیپٹن رضاء چونکہ اس انڈسٹری سے طویل عرصے سے وابستہ ہیں اس لیے ان کا نقطۂ نظر اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق یقینا فوری طور پر کویڈ سے ایئر لائن انڈسٹری متاثر ضرور ہوئی ہے لیکن آج کی دنیا بغیر ایئر لائنس کے آگے نہیں بڑھ سکتی ہے۔ہندوستان میں جب کرونا وائرس کی تباہ کاریاں تیزی سے پھیلنے لگی تو برطانیہ کے بشمول کئی ملکوں نے ہندوستان سے آنے والی فلائٹس پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تو ہندوستان کے متمول ترین لوگوں نے چارٹر فلائٹس کے ذریعہ لمحہ آخر میں لندن پہنچنے کے لیے کم سے کم 72 لاکھ کی ادائیگی کر کے خانگی طیارے کی خدمات حاصل کیں۔کیپٹن رضا کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک برس کے دوران دنیا بھر کے لوگوں نے کروناکے ساتھ رہنا سیکھا ہے اور اب تو کویڈ سے بچائو کے لیے ٹیکہ اندازی بھی شروع ہوگئی ہے تو کہنے کا مطلب ایئر لائنس انڈسٹری کے حالات بھی مستقل طور پر ایسے رہنے والے نہیں ہیں۔ اس پس منظر میں اگر کوئی آج منصوبہ بندی کرتا ہے اور دو برس بعد کی تیاری کرتا ہے تو یقینا اس کے لیے بہت سارے مواقع ہیں۔
کیپٹن رضا کے مطابق میڈیسن اور
Aviation
دو ایسے شعبے ہیں جہاں آنے والے برسوں میں بھی بہت سارے مواقع ہیں۔ اس پس منظر میں اگر ایسے والدین جن کے ہاں اپنے بچوں کو پائلٹ بنانے کے لیے مالی وسائل ہیں انہیں اس سمت توجہ کرنا چاہیے۔
Aviation
کے سیکٹر میں بے شمار ملازمت کے مواقع ہیں۔آج کے حالات کا رونا لے کر بیٹھنے سے کچھ ہونے والا نہیں۔ کل کی تیاری کرنا ہی آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے اور
Aviation
کے شعبے میں روزگار کے شاندار مواقع ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو اس جانب توجہ دلائی جانی چاہیے۔ کیپٹن رضا کے مطابق پہلے کے مقابل آج پائلٹ بننا نسبتاً آسان ہے۔ بہت سارے اکیڈیمیاں کام کر رہی ہیں۔ حکومت کی بعض اسکالرشپس بھی آگئی ہیں اور پائلٹ بننے کے بعد اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی بہت سارے مواقع موجود ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو اپنا اور اپنے بچوں کا کیریئر صحیح خطوط پر استوار کرنے کے کام کو آسان فرمائے اور اکل حلال کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com