ایران کے ایک اہم نیوکلیئر سائنس دان کا گولی مار کر قتل

,

   

سائنس دان محسن فخری زادہ کے قتل میں اسرائیلی ہاتھ ہونے کے ٹھوس اشارے۔ وزیر خارجہ جواد ظریف کا بیان

تہران:ایران کے ایک ایٹمی سائنس دان کو جمعہ کے روز دارالحکومت تہران کے نواح میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ مغرب میں انہیں ایران کے عسکری جوہری پروگرام کا قائد قرار دیا جاتا تھا۔ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ سائنس دان محسن فخری زادہ کے قتل میں اسرائیلی ہاتھ ہونے کے ٹھوس اشارے ملے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔اسرائیل نے اس الزام پر کوئی فوری ردِ عمل ظاہر نہیں کیا، تاہم اس ملک پر متعدد ایرانی ایٹمی سائنس دانوں کو ہلاک کرنے کا شک کیا جاتا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے ایک دفعہ فخری زادے کا ذکر کرتے ہوئے اپنے عوام کو یہ نام یاد رکھنے کیلئے کہا تھا۔اس ہلاکت سے مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اس سے پہلے ایک ایرانی جرنیل کو بغداد میں ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا، جس سے ایران اور امریکہ جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔تازہ واقعہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن کی حلف برادری میں دو ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے اور وہ بعض میڈیا ذرائع کے مطابق ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے میں پھر سے امریکہ کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔حملے کے بعد گھنٹوں تک اس کی تفصیلات ابھی پوری طررح سامنے نہیں آئیں۔ تاہم یہ واقعہ تہران کے مشرق میں واقع آبسرد نامی ایک گاؤں کے باہر پیش آیا جہاں ایران کی اشرافیہ تفریح کیلئے جاتی ہے۔ایرانی ٹیلی وژن کا کہنا ہے کہ لکڑیوں سے بھرے ہوئے ایک پرانے ٹرک میں دھماکہ خیز مواد چھپایا گیا تھا۔ جیسے ہی فخری زادے کی کار ٹرک کے قریب پہنچی تو اس میں دھماکہ ہو گیا۔

جب کار روکی تو اچانک پانچ مسلح افراد تیزی سے آئے اور کار پر اندھا دھند گولیاں برسا دیں۔فخری اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔ دیگر ہلاک شدگان میں فخری زادے کے گارڈ شامل ہیں۔ابھی تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، لیکن جواد ظریف نے اسرائیل کی جانب انگلی اٹھاتے ہوئے اسے ریاستی دہشت گردی قرار دیا ہے۔فخری زادے 1958 میں پیدا ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور امریکہ نے ان پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ایران ان کا تعارف یونیورسٹی میں فزکس کے ایک پروفیسر کے طور پر کراتا ہے۔فخری زادے ایران کی پاسداران انقلاب کے بھی رکن تھے اور انہیں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے ساتھ تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے، جس سے ان کے اثر و نفوذ اور طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔